विज्ञापन के लिए संपर्क करें 9696449123

Breaking News

Search This Blog

Translate

Sunday, August 2, 2020

اردو کے بغیر جدیوکی جیت ناممکن :چونچ گیاوینتیش کمار کی صحبت سے ہم سبھی واقف : نیاز نذر

اردو کے بغیر جدیوکی جیت ناممکن :چونچ گیاوی
نتیش کمار کی صحبت سے ہم سبھی واقف : نیاز نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹنہ(رہبرگیاوی):اردو کی لازمیت کو ختم کر کے ریاستی حکومت بالخصوص نتیش کمار  نے جو قدم اٹھایا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں  ۔انگریزی کی کہاوت ہے a man is known by the company he keeps  اور نتیش کمار کی صحبت سے ہم سبھی واقف ہیں   میں انکے اس قدم کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور اپنا احتجاج درج کراتے ہوے اس فیصلہ کو فورا واپس لینےکی درخواست کرتا ہوں اردو کےساتھ ریاستی حکومت کے ذریعہ کئے جارہے سوتیلے سلوک کے احتجاج میں بہار کے کہنہ مشق اور بزرگ شاعر جناب نیاز نذر فاطمی نے مذکورہ باتیں بزم اظہار کے زیراہتمام احتجاجی میٹنگ میں کہی۔
کہنہ مشق بزرگ اور استاد شاعر مرغوب اثر فاطمی نے کہاکہ
نتیش خیمہ کے اردو داں نیتاؤں کا دامن کھینچنے کی ضرورت ہے۔ رات دن جبہہ سائ میں لگے لوگ کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے۔
 وہیں طنزومزاح کے نمائندہ شاعر چونچ گیاوی نے اپنے بیان میں کہاکہ اردو آبادی کسی بھی حال میں اردو کے ساتھ نا انصافی برداشت نہیں کرسکتی اردو کے خلاف ہونے والی سازش کومیں ناکام بناکرہی دم لوں گا انہوں نے صاف طور پر ریاستی حکومت کو کہاکہ ریاست میں اسمبلی انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوچکاہے ایسے میں اگر نتیش کمار اس نوٹیفیکیشن کو  واپس نہیں لیتے ہیں تو اردو کے بغیرجدیو کی جیت بھی نا ممکن ہوگی۔اردو کے بغیر جدیو اپنی جیت کا خواب دیکھنا بند کردے اردو کو اگر حق نہیں دیاجائے گا تو جدیو کے حق میں ووٹ بھی نہیں دیاجائے گا انہوں نے مزید کہاکہ نتیش کمار نے بہار اردو اکیڈمی میں سکریٹری کے خالی عہدے کو اب تک خالی رکھ کر اردو کے خلاف اپنی نیت کو پہلے ہی ظاہر کردیا تھا واضح رہے کہ محکمئہ تعلیم حکومت بہار نے ہائی اسکولوں کے لیے اردو کو لازمی (COMPULSORY) کے بجائے اب  اختیاری (OPTIONAL) مضمون  بنانے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے۔(سرکلر نمبر 799،مورخہ 15 مئی 2020)
اس نوٹی فیکیشن کے تحت اب اردو کے لیے الگ سے اساتذہ کی بحالی نہیں ہوگی بلکہ سنسکرت یا بنگلہ یا اردو میں سے کسی ایک مضمون کے لیے اساتذہ کاتقرر ہوگا۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ آئندہ ہائی اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بحالی ناممکن ہوجائے گی۔یاد رہے کہ اس سے پہلے فارسی کو اسی طرح مٹایا گیا۔بہار کی تاریخ میں اردو کے خلاف یہ اب تک کی سب سے بڑی سازش ہے۔یہ بہار میں اردو کے قتل کا سرکاری اقدام ہے۔
وہیں بھوجپور کے نوجوان شاعر اظہر رسول نے اپنے بیان میں کہاکہ حکومت اپنا نوٹیفکیشن واپس لے بہار میں اردو کو ختم نہیں ہونے دیا جائے گا اردو کے خلاف اتنی بڑی سازش برداشت نہیں کی جائے گی میں اس کی پرزور مذمت کرتاہوں
ویشالی کے بزرگ شاعر حنیف اختر نے کہاکہ بہار سرکارکا اردو کے ساتھ یہ ناروا سلوک اردو والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا ہےہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے انہوں نے زور دے کر کہاکہ
اگر اردو کےدشمن اپنی اس سازش میں کامیاب ہو تے ہیں تو میں تاحیات انھیں ووٹ نہیں ڈالوں گا،یہ میرا آپ سب سے وعدہ ہے
 موتیہاری مشرقی چمپارن کے نمائندہ شاعر کلیم اللہ کلیم نے اپنے احتجاجی بیان میں کہاکہ
بہار میں اردو کو بےجا ختم کرنے کی سازش ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے 
اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے اور اس کے ساتھ ایسا سوتیلاپن کہیں سے درست نہیں ہے نتیش کمار ہوش کے ناخن لیں اور یہ نوٹیفیکیشن جلد ازجلد واپس لے اگر یہ نوٹیفیکیشن واپس نہیں لیا گیا تو یاد رہے آنے والے الیکشن میں اردو کی بقاء کے لیے ہم اردو داں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
مدھوبنی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر م سرور پنڈولوی نے کہاکہ بہار سرکار کے اس  متعصبانہ ، اردو دشمنی اور محبانِ اردو کےخلاف اٹھا ئے گئےقدم کی میں سخت مذمّت کرتا ہوں ۔ جس صوبے میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو بھلے ہی اب یہ محض علامتی ہی کیوں نہ رہ گیا ہو  وہاں اسکولوں میں اسےاختیاری کر دینا آخر کیا ظاہر کرتا ہے ؟ 

میری ارباب اقتدار میں شامل اردو برادری سے اور دیگر سیاسی رہنما ؤں سے اپیل ہے کہ وہ اس کے خلاف پر زور احتجاج کریں ورنہ محبّانِ اردو صوبہ گیر تحریک چھیڑ نے پر مجبور ہوں گے ڈاکٹر مقصود عالم رفعت نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے جس نے اردو کا برا چاہا وہ اقتدار سے باہر ہو گیا
نتیش اوران کے مشیر کار کو یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیے
گیا سے نئی نسل کےنمائندہ اور خوش فکر شاعر نوشاد ناداں نے کہاکہ وزیر آعلی بہارسے گزارش
 ھےاردو کی لازمیت کو ختم کرنے کے لٸے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا ھے جلد سے جلد واپس لیکر اردو دنیا کے ایک بڑے طبقے کو شکریہ کا موقع عنایت کریں۔ریاستِ بہار میں دوسری سرکاری زبان کی حیثیت رکھنے والی اردو زبان اتنی مقبول ترین اور شیریں ھے کہ  آپ کی ایک بھی تقریر بغیر اس زبان کو شامل کٸے مکمل نھیں ھوسکتی جواس بات کی دلیل ھے کہ آپ کو بھی اس زبان سے شغف ھے۔اس کے باوجود بھی سرکاری اسکولوں کے کورس سے اسکی لازمیت کو ختم کرکے اختیاری بنانا جو قابلِ قبول نھیں ھے۔ہم اس کی سخت ترین مزمت کرتے ھیں اور  ایک بار پھر گزارش کرتے ھیں کہ ہم قلمکار جو ملک و ملت اور اپنے اپنے صوبہ کے لٸے ایک آہنگ ھیں اسے تواناٸ بخشنے کی مزید کوشش کریں اس نوٹیفیکیشن کو واپس لیکر
احتجاج کرنے والوں میں مشتاق احزن سیوان،قسیم سہسرامی بھوجپور، اعجاز عادل ویشالی، سمیع احمد ثمر سارن،صبا دربھنگوی دربھنگہ وغیرہ کے نام شامل ہیں
Conch Gayabi

No comments: