تبصرہ
از
سکندر علی شکن
نام کتاب : قدیم و جدید ادبیات (تحقیقی و تنقیدی مضامین)
ناشر و مصنف : غلام نبی کومار
سن اشاعت : 2019 ء
قیمت : 222 روپے
صفحات : 384
تعداد: 500
مطبع : روشان پرنٹرس، دہلی 6
غلام نبی کومار اس اکیسویں صدی میں ، اردو ادب کے آسمان میں طلوع وہ روشن ستارہ ہے جو کسی کے تعارف کا محتاج نہیں ۔ پھر بھی میں اس نوجوان ادبی ستارے کی مختصر تعارف بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں غلام نبی کومار کا تعلق چرار شریف ضلع بڈگام سے ہے اور یونیورسٹی آف دہلی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔ انکا شمار نوجوان ناقد و محققین میں کیا جاتا ہے ۔
"قدیم و جدید ادبیات" غلام نبی کومار کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کی پہلی کتاب ہے ۔ جس میں مختلف موضوعات کے تحت بیس مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ یہ تحقیقی و تنقیدی کتاب تا حد نظر غلام نبی کومار کے تحقیقی و تنقیدی کاوشوں کا شاہکار ہے۔ اس کتاب کی اشاعت بہت عمدہ ہے اس کی اشاعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی کے مالی تعاون سے ہوا ہے۔ قدیم و جدید ادبیات میں قارئین کو متفرق مضامین پڑھنے کو ملیں گے جن میں غزل، نظم، افسانہ، مثنوی، تحقیق، رباعی، ادبی صحافت اور شخصیات وغیرہ۔
اس کتاب میں چند مضامین ایسے ہیں جو مختلف سیمیناروں میں پڑھنے کے غرض و غایت سے لکھے گئے ہیں جن میں "امیر خسرو کی غزلیہ شاعری"، "رباعیات حالی میں قومی اصلاح" ، " داغ کی مشنوی نگاری: فریاد داغ کی روشنی میں" اور " 1960 کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب" قابل ذکر مضامین ہیں۔
"رباعیات حالی میں قومی اصلاح " کے عنوان سے ابھی تک میری نظر میں کوئی مضمون نہیں گزرا اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ مضمون بہت اہم ہے ۔ اردو شاعری میں مومن ایک معتبر نام ہے، مومن غالب کے ہم عصر تھے ان کی شاعری پر ابتدا سے اب تک جن ناقدین اور محققین نے تحقیقی کام سر انجام دئے ہیں ان سب کی کتب کا مصنف نے کماحقہ اپنے مضمون میں جائزہ لیا ہے ۔ اس کتاب میں "جموں کشمیر کی معاصر اردو شاعری اور چند غزل گو شعرا" اور "کتاب نما اور بعض اہم خصوصی شمارے " جیسے مضامین بھی شامل ہیں ۔اس کے علاوہ "ذہن جدید اور زبیر رضوی کے عنوان سے بھی ایک مضمون ہے ۔ ذہن جدید ایک بین القوامی رسالہ تھا جو زبیر رضوی کی ادارت میں مسلسل 26 برسوں تک نکلتا رہا ۔ زبیر رضوی کے انتقال کے بعد یہ رسالہ بند ہو گیا قلم زن نے اپنے مضمون ذہن جدید اور زبیر رضوی میں اس رسالہ کی مکمل خدمات کا تذکرہ پیش کیا ہے ۔ راقم نے اپنے مضامین میں اس خصوصی شمارے کا ایمانداری کے ساتھ تجزیہ کرنے کی سعی کی ہے اس علاوہ دیگر مضامین بھی قابل مطالعہ ہیں ۔ ۔ اس کتاب کا پہلا مضمون "امیر خسرو کی غزلیہ شاعری" پر تحریر کیا گیا ہے ۔ جس میں امیر خسرو کے غزلیہ شاعری کے مخفی خزانہ کے اوپر پڑے پردے کو ہٹانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔
اسی طرح مصنف نے اس کتاب میں ایسے ایسے موضوعات پر زیب قرطاس کی ہے جس طرف ہمارے محققین اور ناقدین کا دھیان کبھی گیا ہی نہیں ۔ اس کتاب کا آخری مضمون "خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ" ہے جسے مصنف نے بڑی خوبصورت انداز میں پیش کی ہے
غلام نبی کومار کی نظر محدود نہیں انہوں نے اپنی اس کتاب میں ادب کے ہر گوشے کا ذکر کیا ہے غلام نبی کومار کی یہ کتاب ایک ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آج اس کتاب مقبولیت صرف ہند ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی ہے ۔
یہاں یہ کہنے سے دریغ نہیں کرنی چاہیئے کہ غلام نبی کومار نئے قلمکاروں میں اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ اس تحقیقی و تنقیدی کتاب سے پہلے بھی انکے مضامین ملک و بیرون ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں
یہی وجہ ہے کہ اس ادبی ستارے کی مقبولیت کا شہرت صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری اردو ادبی دنیا میں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے نئے قلمکاروں کی پذیرائی ہو اس حوصلہ سے نئی نسل کی حوصلہ افزائی اور آبیاری ممکن ہو سکے گی اردو ادب کو غلام نبی کومار سے بڑی توقعات وابستہ ہیں ہم آخر میں صرف یہی کہنا چاہیں گے یہ تحقیقی و تنقیدی تا حد نظر کتاب اردو تحقیق و تنقید نگاری میں یورینیم کے زخیرے کی طرح ہے اسے ضرور پڑھنا چاہئے ۔
Translate
Wednesday, July 29, 2020
Tags
![Author Image](http://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjUlo49PAf7jAZcIjoGZXMO7e3-JtbkD05g8yvx1x0GNmgn9BUSRYqCoPMQalwk6oGrcklhOnl0O5YZF_kE2R_ew-RrIcmIWii7XPoKoMI3zNCnAmVDc240mDnbrw0kjg_dJOfwihQDU-9F0n_31s5sW5Aj7fLPPjg5SPRLJBCZOTQ/s220/20220403_135859.jpg)
By Noorjahan Express
.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment