विज्ञापन के लिए संपर्क करें 9696449123

Breaking News

Search This Blog

Translate

Wednesday, July 29, 2020

Shikan diary


سکندر علی شکن بہرائچ کے ایک قصبے سے تعلق رکھتے ہیں۔۔سکندر علی شکن صاحب اک ایک افسا نہ نگار کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں جن کے افسانے اردو کے کئی ادبی رسالوں اخباروں میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں ان کے افسانوں کا مطالعہ کرنے سے کرشن چند کے افسانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔۔۔ افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی شوق رکھتے ہیں۔۔۔
استقبال ہے محترم سکندر علی شکن صاحب کا۔۔۔ہمارے ادبی گروپ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔






غزل
سکندر علی شکن

ہر طرف ظلمتوں کا ڈیرا ہے
ان کو لگتا ہے کہ سویرا ہے
دوست دشمن نظر نہیں آتا
ایسا چھایا ہوا اندھیرا ہے
چال اس میں ہے چال بازوں کی
ہر طرف تو انہیں کا گھیرا ہے
شعلے بھڑ کے ہیں جب تعصّب کے
اپنا ہی کیوں جلا بسیرا ہے
جس کو مسند نشیں کیا ہم نے
راہبر وہ نہیں لٹیرا ہے
جھوٹ کی پیروی میں منصف ہے
حق ملے گا وہم یہ تیرا ہے
میری غزلیں شکن سبھی بے دم
خامہ فرسائی کام میرا ہے

غزل

سکندر علی شکن


آپ کی راہوں میں اب ہم کبھی نہ آئیں گے
تیری محفل سے بہت دور چلے جائیں گے
سیاسی رنگ میں تم ڈھلتی رہو شام سحر
گزارو عیش سے جیون تم اپنا شام سحر
حکمرانی کرو تا عمر یار قریہ پہ
مگر خیال رہے پہنچے نہ کسی کو ضرر
گناہ میرا تھا جو ہم نے تجھ سے پیار کیا
خطا کیا جو میں نے تجھ پہ اعتبار کیا
ہے التجا یہ میری و آخری چاہت تم سے
کرو فریب نہ ہرگز یہی حاجت تم سے
میرا وعدہ رہا ہم تجھ کو بھول جائیں گے
بھول کر تیرےخیالوں میں بھی نہ آئیں گے

غزل 2

آلم تنہائی میں ماضی کے منظر آ گیے
یاد انکی آتے ہی اشک سمندر آ گئے
ہم بھٹکتے پھرتے تھےتاریکیوں میں روز و شب
آپ آئے زندگی میں گویا مظہر آ گئے
اک فراق یار سے سوکھے میرے دل کے شجر
تھی ابھی فصل بہارا رنج عنبر چھا گئے
فہم تھا میرا بھٹکتے عشق میں تنہا مگر
غور سے دیکھا نظر لاکھوں قلندر آ گئے
کل تھا ناز جن کو اپنی طاقت پہ شکن
دیکھتے ہی دیکھتے سر کو جھکا کر آ گئے

غزل 3

جو آج بزم سیاست سجائے بیٹھے ہیں
وہ اہل شہر کو پیہم ستائے بیٹھے ہیں
یہاں جو صبر و تحمل کی بات کرتے ہیں
یہ لوگ وہ ہیں جو بستی جلائے بیٹھے ہیں
امڈتے دل میں ہیں، طوفان اقتداری کا
ہزاروں خواب دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں
سکون و چین دلوں کا قرار اے ہمدم
بزار عشق میں سب کچھ گنوائے بیٹھےہیں
تمہارے شہر نے چھینا ہے ہم سفر ہم سے
یہی تو غم ہے جو دل میں دبائے بیٹھے ہیں
یہ آرزو ہے خدا ان کو اب ہدایت دے
جو اپنے فرض کو بالکل بھلائے بیٹھے ہیں
ہماری پلکوں پہ اے جگنؤو! ٹھہر جاؤ
کسی کی یاد میں پلکیں بچھائیں بیٹھے ہیں



غزل 4


بے وفا تو نہیں ہمدم تیری مجبوری ہے
سراغ اب ملا کہ کیوں یہ کتنی دوری ہے

صد آفریں ہیں مجھے تیرے کارنامے پر
جوتونےسمجھا کی حب سےفرض ضروری ہے

ہم خطاکار تھے ہمدم جو بے رخی کو تیرے
ہم سمجھتے رہے یہ تیری مغروری ہے

ہاں مگر یہ بھی سچ ہے ؛ اے میرے محسن
بغیر تیرے میری زندگی ادھوری ہے


غزل 5

میرے محبوب بتا تجھ کو بھلائیں کیسے
زخم اس قلب کا ہم تم کو دکھائیں کیسے

ہم شب و روز بھٹکتے ہیں دست و صحرا میں
قصہ درد بھلا اپنا سنائیں کیسے

تیری فرقت میں یہ اجڑا نشیمن میرا
غم افسردگی ہم اپنا چھپائیں کیسے

میری آواز تو تجھ تک پہنچ نہیں سکتی
میرے محبوب بتا تجھکو بلائیں کیسے

حسیں مجھ کو بہت ملتے ہیں شکن جلوت میں
مگر دل میں کوئی بستا نہ، بسائیں کیسے

سکندر علی شکن








سیاسی غزل

سکندر علی شکن

رابطہ نمبر 9519902612

سجا کے سر پہ وہ نفرت کا تاج بیٹھے ہیں
بے ادب بزم سیاست میں آج بیٹھے ہیں
یہ اور بات ہے آتا نہیں انہیں کچھ بھی
مگر چلانے کو بھارت کا راج بیٹھے ہیں
تمیز جس کو نہیں اپنا گھر بدلنے کی
وہی بدلنے کو پورا سماج بیٹھے ہیں
یہ کل کے بچے سیاست کی بات کرتے ہیں
یہاں تو پہلے سے عمر دراز بیٹھے ہیں
ایک امید ہے آئیں گے اچھے دن پھر سے
چھوڑ کے ہم بھی اپنا کام کاج بیٹھے ہیں
ان کےماتھے کی شکن دیکھ کے ہوا خاموش
نہ جانے کتنے چھپائے وہ راز بیٹھے ہیں



ل

سکندر علی شکن

ہم اپنے حال کو دل میں چھپائے پھرتے ہیں
جناب آپ کو دل میں بسائے پھرتے ہیں
چلی پاس مرے حشن و عشق کی دیوی
ہم شب و روز یہ صوتی لگائے پھرتے ہیں
جنہیں ورثہ میں ملی تھی یہ زبان اردو
وہی مذاق اردو بنائے پھرتے ہیں
وسعت اردو کا وعدہ کبھی کیا ان سے
وہ وعدہ آج ہم پیہم نبھائے پھرتے ہیں
مجھےامید ہے پہنچیں گے اک دن منزل پہ
قدم ہم جانب منزل بڑھائے پھرتے ہیں
مجھے یہ علم ہے یہ غزل شائع نہ ہوگی
پھر بھی اخباروں کے چکر لگائے پھرتے ہیں
لوگ کہتے ہیں بھئی تیری غزل بے دم ہے
مگر پھر بھی وقت اپنا گنوائے پھرتے ہیں
بند کر دے تو شکن آج سے لکھنی ہی غزل
مرے جیسے کئی ساعت گنوائے پھر تے ہیں

غزل



ہم خطاکار تو خود کو سمجھتے آئے ہیں
تمہارے پیار میں پل پل سنبھلتے آئے ہیں
مہد سے پیار تھا تم سے اور لحد تک ہوگا
گل حسرت یہی دل میں مہکتے آئے ہیں
حسن ہے پاس نہ میرے یہ علم ہے تجھ کو
مگر کردار سے اپنے سنورتے آئے ہیں
تم نے ہنگامی ملاقات کا تھا وعدہ کیا
ہم اسی شوق میں یاں تک بھٹکتے آئے ہیں
مرے محبوب جو بھی بات کہی ہے تم نے
تری ہر بات پہ لبیک کہتے آئے ہیں
ائے شکن تو نہیں عشق میں اسکے اسیر
اس گلی میں کئی عاشق ٹہلتے آئے ہیں



سکندر علی اسم میرا ، تخلص ہے شکن یارم
ہمارے نام کے چرچے گلی کوچوں میں رہتے ہیں

آئنہ اس کو ہر عہد میں دکھایا تو نے،
مگر افسوس وہ سمجھا نہیں عظمت تیری

میرے امی کی دعاعیں ہیں میرے ساتھ شکن
بھلا یہ باد مخالف مرا کیا کر سکتی ؟

ہمارے روبرو غم و خوشی کی کیا حقیقت ہے
ہم ایسے اونچے نیچے مرحلوں سے ہیں بہت گزرے

عقل سلیم کر عطا مجھ کو تو اے خدا
گمراہ ہو کر راہ سے بھٹکوں یوں سدا

ایسے اثنا میں تمہیں دیکھتی اگر لیلی
دست وہ چھوڑ کر مجنو کا پاس آتی تیرے

مبارک باد دینے آیا ہوں یوم ولادت پہ
بھلے ہی آپ اب دیکھیں مجھے نظر حقارت سے

میرے قصور کی گر وضاحت آپ کر دیتے
مجھے معلوم تو ہوتا، میری خطا کیا تھی

شکن اس بزم میں آنے کا مجھے شوق نہیں
مگر کسی کی محبت گھسیٹ لاتی ہے

اس عہد ترقی میں فرصت ہو پاس جسکے
اس کا پتہ بتاو میں ملنا چاہتا ہوں

اس کے ہاتھوں کہ صفت تھی یا مسالوں کا اثر
جو بھی کچھ ہو پکوڑی ذائکے میں اچھی تھی


جب میرے نجم و نشق سے واقف ہو ہر طرح
کیا میرے حال دل سے تو باخبر نہی

کون اب چاہتا علم کو حاصل کرنا
یہاں تو حاجت ڈگری میں سبھی پھرتے ہیں

ہماری سوچ میں، تو اس طرح آ کر کے بیٹھی ہے
کہ جیسے تو سمجھتی ہو یہ میرے باپ کا گھر ہے

نہیں تنقید سے گھبرا شکن! یہ صابون ہے ,
حیات میل کو یہ تیرے صاف کرتی ہے

پانی بھرا ہے جب سے وصل منقطع رہا
جی کرتا ہے تالاب پہ انجن کو لگا دوں
فرہاد نے کھودی تھی نہر شیری کے لیے
میرا بھی دل کرتا ہے کہ تالاب سکھا دوں

ادب سے آوء بیٹھیں اور ادب کی بات کریں
یہ ادب گاہ ہے اس میں نہ خرافات کریں
ادب کی بات گر نہ کر سکو خاموش رہیں
کبھی سچائی سے ہرگز نہ فراموش رہیں

بحر میں آب برسنے سے بھلا کیا حاصل
دہر میں آگ دہکنے سے بھلا کیا حاصل
وہ علم جس سے بن پائے دین و دنیا تری
ایسے تحصیل علم سے بھلا ہےکیا حاصل
سہ پہروقت میں جگنوں کاارےکام ہی کیا
رت خزاں سے پریندوں کوبھلا کیاحاصل

از سکندر علی شکن









تخیل میں قدیمی تیری یاد آتی ہے

سکندر علی شکن

فون نمبر 9519902612

تخیل میں قدیمی تیری یاد آتی ہے
خلوت میں تمہاری یاد آتی ہے
تم کھا رہی ہو وہاں کوکر کی پکی دالیں
ہم یہاں چولہے کی جلی روٹی کھاتے ہیں
پی رہی ہو وہاں تم فریز کا پانی
ہم یہاں نل کا آلودہ پانی پیتے ہیں
سو رہی ہو وہاں تم زیر فین خوش نیندیں
ہم یہاں کھلے آسماں کے تلے سوتے ہیں
تم تو دھوپ کو برداشت کر نہیں سکتے
کھڑے ہیں ہم یہاں دھوپ میں ستوں کی طرح
ہمیں بتاؤ ذرا تم ملوگے کب ہم سے
تمہاری یاد میں دن رات آہیں بھرتے ہیں

تخیل میں قدیمی تیری یاد آتی ہے
خلوت میں تمہاری یاد آتی ہے

تجھے عبور تھا حاصل زبان ہندی پہ
تمہاری یاد میں نے بھی ہندی سیکھ لیا
ترا تو پیار برستا تھا اہل اردو پہ
عبور کر لیا حاصل بھی ہم نے اردو پہ
وہ زمانہ یاد ہے مجھے اب تک
تمہیں کیا یاد ہے یا تم اسے بھول گئے
وہ کالج میں ساتھ ساتھ رہنا پڑھنا
تمہاری یاد میں دن رات آہیں بھرنا
تمہیں دیکھے بغیر چین نہيں رہتا تھا
کوئی ثانی میرے کالج میں نہیں تم سا تھا
وہ کالج کے ستون برامده
بلیک بورڈ چٹائی یاد آتی ہے

تخیل میں قدیمی تیری یاد آتی ہے
خلوت میں تمہاری یاد آتی ہے

تمہارے بیت میں گویا کہ حشر برپا تھا
کاؤنٹنگ بوتھ سے گهر پہ اک تار آیا تھا
کہ تری سلطنت باقی نہی رہی اب تو
موضع پہ تیری حکومت نہیں رہی اب تو
اس ساعت تیرے آنکھوں سے اشک بہتے تھے
تمہارے دل میں حریف غم بھرتے تھے
مگر یہ کھیل ہے اس کاتب تقدیری کا
وہ جس کو چاہتا ہے اس کو بادشاہ کرتا

تخیل میں قدیمی تیری یاد آتی ہے
خلوت میں تمہاری یاد آتی ہے

تجھے دیکھا تھا کبھی انگلش میں گفتگو کرتے
اسی وقت میرے زبان سے سہسا نکلا
جنہیں کل بولنا اردو بھی نہیں آتا تھا
دیکھئیے آج وہ انگلش میں بات کرتے ہیں
کہا تھا کسی نے کبھی یہ ہم سے
میں اہل وفا ہوں اور وفا نبھاؤںگا
اسی وقت میں نے بھی کہا یہ اس سے
میری ضمانت جو سدا لیتے رہے ہر موڑ پہ
آج ایسے وقت میں وہ بے تعارف ہم سے ہے
اور کر دیا تھا نام جنکے ہم نے اپنی زندگی
جب وہ ٹرایٹر ہو گیا تو تری کیا بات ہے

تخیل میں قدیمی تیری یاد آتی ہے
خلوت میں تمہاری یاد آتی ہے

مذہب عشق میں یہ رسم ہے چلی آئی
کسی کو پیار ملا تو کسی کو رسوائی
جب میرے یار ہی نے پیارکو تھا رسواں کیا
کیا اس میں اہل زمانے کا تھا قصور بھلا
میں اس کے باوجود تم سے پیار کرتا ہوں
میں شب و روز تیرا انتظار کرتا ہوں
ہمارا دل تو ابھی بھی دیتا ہے صدا
وہ آکے ہم کو دکھاینگے اپنی پہلی ادا
آئنگے ملیں گے و ہم کلام کریں گے
برسو سے یہی بات تو میں سوچ رہا ہوں
مبارک ہو تمہیں دونوں جہان کی خوشیاں
ہم اپنی زندگی ایسے ہی بسر کر لینگے
تمہاری یاد ہے کافی میرے جینے کے لئے
حیاتِ سفر ہم ایسے تعام کر لیں گے
تمہارے یاد میں لکھے گئے کلام ہیں یہ
تمہارے پیار میں لکھے گئے سلام ہیں یہ

تخیل میں قدیمی تیری یاد آتی ہے
خلوت میں تمہاری یاد آتی ہے
۔................. . .............. ..........





.یہ اشعار سکندرعلی شکن کی ڈائری سے ماخذ ہے اس میں سکندرعلی شکن اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ" اے میرے محبوب تو بے وفا نہیں ہے بلکہ تیری مجبوری ہے۔ آج ہم کو سراغ ملا ہے آج میں نے اپنے دماغ پر جو ڈالا تو مجھے پتا چلا کہ ہو سکتا ہے کہ تیری کوئی مجبوری ہو ۔
میرے محبوب میں بہت خوش ہوں تمہارے اس کارنامے کو دیکھ کر کہ تم نے محبت کے بنسبت فرض کو ضروری سمجھا میرے محبوب میں خطا کار ہوں جو میں تمہاری بے رخی کو تمہاری مغروری سمجھ رہا تھا۔
مگر یہ بھی سہی ہے یہ تمہارے بغیر میری زندگی ادھوری ہو کر رہ گئی ہے۔





غزل ۔۔۔۔۔۔۔برائے فنی تنقید

شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر علی شکن

مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

جو آج بزم سیاست سجائے بیٹھے ہیں

جو آج بز-مفاعلن مِ سیاست-فعلاتن
-سجائے بَےمفاعلن ٹے ہَے-فعلن

وہ اہل بستی کو پیہم ستائے بیٹھے ہیں
وہ اہلے بس مفاعلن تِ کو پہیم فعلاتن
ستائے بَے مفاعلن ٹے ہَے-فعلن
نوٹ بستی کی ی گر رہی ہے اور علم عروض کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ یہ یائے اصلی ہے اگر ی کو نکال دیں تو بست بچے گا اور بست کوئی لفظ نہیں ہے ۔
کل ملا کر مصرع درست نہیں ہے
آپ اسے اس طرح کر لیں
وہ اہل شہر کو پیہم ستائے بیٹھے ہیں

یہاں جو صبر و تحمل کی بات کرتے ہیں
یہ لوگ وہ ہیں جو بستی جلائے بیٹھے ہیں

یہ شعر درست ہے۔۔۔ تو ہم نہ اس پر کلام کریں گے اور نہ ہی ہم اس کی تقطیع کریں گے
ہاں جب تبصرہ کیا جائے گا تب شعر کی اچھائی اور برائی پر بھی بات ہو گی
ابھی ہم صرف فنی خرابی کی بات کر رہے ہیں

امڑتا دل میں ہے طوفان اقتداری کا
ہزاروں خواب دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں
امڑتا دل ۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔۔امڑتے دل میں ۔۔۔۔۔۔۔
شعر درست ہے

سکون وچین دلوں کا قرار اے ہمدم
بازار عشق میں سب کچھ گنوائے بیٹھےہیں

سکونو چَے مفاعلن ن دلو کا فعلاتن
قرار اے مفاعلن ہمدم فعلن
بزارے عش مفاعلن ق مِ سب کچ فعلاتن
گوائے بے مفاعلن ٹے ہَے-فعلن
بازار کا مخفف بزار ہوتا ہے اس لیے یہ مصرع درست ہے
مگر آپ بازار عشق مت لکھیں بلکہ بزار عشق لکھیں

تمہارے شہر نے چھینا ہے ہم سفر میرا
یہی تو غم ہے جو دل میں دبائے بیٹھے ہیں

یہاں شترگربہ ہو رہا ہے اس کی تعریف پڑھ لیں
شترگربہ: پہلے مصرع میں ’’آپ ، دوسرے مصرع میں تم‘‘ یا ’’ پہلے مصرع میں تم اور دوسرے مصرع میں تو لکھیں۔۔ یا اسی طرح ایک ہی بندے کے لیے الگ الگ صیغے استعمال کریں۔
تو پہلے مصرع کو یوں کر لیں عیب دور ہو جائے گا
تمہارے شہر نے چھینا ہے ہم سفر ہم سے

یہ آرزو ہے خدا ان کواب ہدایت دے
جو اپنے فرض کو اکدم بھلائے بیٹھے ہیں
دوسرے مصرع میں اکدم غیر مانوس لگ رہا ہے اس کی جگہ ۔۔۔۔بالکل کر لیں
جو اپنے فرص کو بالکل بھلائے بیٹھے ہیں

ائے جنگجوں مری پلکوں پہ اب ٹھہر جاوء
کسی کی یاد میں پلکیں بچھائیں بیٹھے ہیں

یہاں کتابت کی کچھ غلطیاں نظر آرہی ہیں اسے پہلے درست کر لیتے ہیں

ائے جگنؤو! مری پلکوں پہ اب ٹھہر جاؤ
کسی کی یاد میں پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں

یہاں بھی شترگربہ ہے
پہلے مصرع میں ہماری ہونا چاہیے تھا
اسے یوں کر لیں
ہماری پلکوں پہ اے جگنؤو! ٹھہر جاؤ

من جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشرف کمال اعظمی ندوی
بزم تنقید واٹس اپ نمبر 00917800160900


No comments: