*غزل*
*کس قدر آدمی ہوا مجبور*
*بے اثر ہے دعا ، دوا مجبور*
*آدمی آدمی میں دوری ہے*
*ایک تنہا ہے دوسرا مجبور*
*سارے عالم پہ دسترس تھی کل*
*ایک ذرّ ے نے کر دیا مجبور !*
*گھر میں محصور ہو کے بیٹھاہے*
*کر بھی پائے گا کیا بھلا مجبور*
*چھوڑ دوں کیا جلانا ؟ بجھنے پر*
*کر رہی ہے ا گر ہوا مجبور*
*مسجد وں میں بھی جانہیں سکتے*
*ہو گئے کتنے پارسا مجبور*
*اس اندھیرے میں کچھ نظر آئے*
*چلئے مانا کہ ہے دیا مجبور*
*توُ نے اشرف بنایا تھا جسکو*
*کس قدر کر دیا خدا مجبور*
*اتنی مجبوریاں ! ارے توبہ*
*کوئی سرورٙ ہے آپ سا مجبور*
✒ *م ، سرور پنڈولوی*
2 comments:
بہت ہی خوبصورت غزل ہے.
مبارکباد پیش کر تا ہوں
واہ۔۔واہ۔ بھت پیاری غزل ھے حالات حاضرہ کی بھرپور عکاسی ھے
گیا نوشاد ناداں۔
Post a Comment