غزل
اب تک کسی دوا نے کیا ہے اثر کہاں
آخر ملے گا مجھ کو مرا چارہ گر کہاں
ہم کس کا انتخاب کریں، کس سے اجتناب?
دنیا میں معتبر ہے کوئی راہبر کہاں
ظالم تھے جتنے سارے حکومت میں آگئے
پہلے بھی ظلم ہوتے تھے پر اس قدر کہاں
بس اپنے بازوُں پہ مجھے اعتبار ہے
غیروں پہ رہتا ہوں میں کبھی منحصر کہاں
جانے فلک میں سازشیں کیسی رچی گئیں
وہ روز و شب کہاں مرے، شام و سحر کہاں
تنہا نکل پڑا ہوں میں منزل کی چاہ میں
رکھتا ہوں دل میں آرزوئے ہمسفر کہاں
رفعت جی رنگ چہرے کا فق کیوں ہے اس قدر
یہ تو بتائیں آپ کہ تھے رات بھر کہاں
ڈاکٹر مقصود عالم رفعت
No comments:
Post a Comment