قلب مومن میں اسے تخت نشیں رکھا ہے
اک ستارہ جو سر عرش بریں رکھا ہے
جذبئہ شوق سے آباد ہے دل کی دنیا
کتنا روشن وہ مرا داغ جبیں رکھاہے
میں نے انسان کی عظمت پہ یقیں رکھا ہے "
ہو گیا دنیا میں وہ شخص ذلیل و رسوا
جس نے قرآن پہ ایمان نہیں رکھا ہے
ہر طرف آگ زنی اور ہے دہشت کا سماں
ہائے وہ شہر جسے دل کا امیں رکھا ہے
شربت دید کا اک جام پلا دے ساقی
غم نے فرقت کا ہمیں چیں بہ جبیں رکھا ہے
گوشہ گوشہ ہے مری فکر کا روشن ناظم
سر وحدت میں نہاں ماہ مبیں رکھا ہے
2
غزل
جو وقت آیا تو کردی خوشی خوشی میں نے
وطن کے واسطے قربان زندگی میں نے
کراہتی ہے زمیں تیری فتنہ سازی پر
لہو کا دیکھا ہے منظر ابھی ابھی میں نے
تری خوشی پہ لٹا دی ہے ہر خوشی لیکن
"خود اپنی ذات سے برتی ہے بےرخی میں نے"
رواں رگوں میں لہو آج بھی ہے ٹیپو کا
دکھائی پشت نہ اہل وطن کبھی میں نے
مرے سروں پہ ہے الزام کیوں تشدد کا
جو احتجاج میں برتی ہے شانتی میں نے
نہ احتمال کی نظروں سے تم مجھے دیکھو
ہرایک سمت دکھائی ہے روشنی میں نے
بس ایک فتنہ ہے ناظم یہ شہریت کا بل
نہ ایسی دیکھی کبھی پہلے سرکشی میں نے
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
No comments:
Post a Comment