विज्ञापन के लिए संपर्क करें 9696449123

Breaking News

Search This Blog

Translate

Saturday, August 3, 2019

Be Rojgari in Urdu By Nawajis khan

افسانہ ---- بےروزگاری
-----------------------------
افسانہ نگار - نوازش علی
رابطہ نمبر ۔9696449123
(ایل ۔ایل ۔ بی ۔ اسکالر، سنجیونی کالج آف لا کرتن پور بہرائچ یو۔ پی۔)
-------------------------------------------------------------------


یہ لاش کسی اور کی نہیں، بلکہ ساجد کے دوست احمد کی تھی ان دونوں نے بچپن ساتھ- گزارا تھا ساتھ-ساتھ کھیلے پڑھے اور جوان بھی ہوئے تھے ساجد کے باپ نے تو دسویں تک پڑھا کر صاف کہہ دیا تھا بس ہو چکا ، نوکری تو ملیگی نہیں کیا فائدہ وقت برباد کرکے، بہتر ہے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کا ہنر سیکھ لو یہی اصل پڑھائی ہے لیکن احمد کے والد نے ہمت نہیں ہاری تھی وہ احمد کو بی ایڈ کروانا چاہتے تھے احمد نے ساجد سے کہا کہ وہ بھی اپنے والد سے ضد کرکے پھر سے داخلا کرا لے،
ساجد نے جواب دیا یار ابا ٹھیک کہتے ہیں پڑھ بھی لوں، تو بھی بغیر رشوت کے نوکری نہیں ملیگی ۔ احمد بولا -" ارے یار ! اسی لئے تو بی۔ایڈ کر رہا ہوں ۔ ساجد بولا تو کیا بی۔ ایڈ والوں کو رشوت نہیں دینا پڑتا احمد بولا یار تو سمجھا نہیں ! سرکاری ملازمت میں اگر رشوت مانگا گیا تو ہم پرائویٹ اسکول جوائن کر لینگے وہاں تو رشوت نہیں دینی پڑیگی ساجد بولا پھر بھی یار میرا دل نہیں کرتا ۔
الغرض ساجد زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شہر چلا گیا ۔
وقت یوں ہی گزرتا گیا احمد بی۔ایڈ پاس ہو چکا تھا وہ بہت خوش تھا مگر گردش وقت میں دونوں دوست ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے ۔ ساجد کی شادی ہو چکی تھی اور اب وہ گھر کی ضروریات پورا کرنی میں اتنا الجھ گیا تھا کی وہ احمد کو بالکل بھلا بیتھا تھا ۔ پورے چار شال ہو گئے تھے دونوں دوست نہیں ملے تھے ۔
اس بار ساجد کی بیوی نے فون پر پیار بھری ڈانٹ لگا دی تھی تین سال ہو گئے مائکے میں عید نہیں کیا ابکی بار عید تمہارے ساتھ مائکے میں کرونگی ۔ وعدہ کرو نہیں تو میں تم سے بات نہیں کرتی ساجد نے وعدہ کیا اور وعدے کے مطابق عید کے ایک ہفتے پہلے پورے اہل خانہ کا عیدانہ لےکر آ گیا ۔
شام کو ساجد اور اسکی بیوی باتیں کر رہے تھےکہ یکا یک اسکی بیوی بولی ۔"تمہارے دوست جن کی باتیں تم اکثر کیا کرتے تھے وہ پڑھائی میں پاس ہو گئے ہیں اور ان دنوں وہ گھر پہ ہی ہیں ۔ ساجد یہ سن کر بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا اپنی بیوی سے بولا۔" شہر بانو بہت دن ہو گئے ہیں احمد سے نہیں ملا ہوں۔ جا کر مل آوں پھر چلا گیا ۔ شہر بانو کو ساجد کا اس وقت جانا برا لگا ۔ کچھ نہیں بولی مگر دل ہی دل میں پچھتا رہی تھی کہ میں نے بے کار ہی میں احمد کا ذکر اس وقت کر دیا ۔ ساجد جب احمد کے گھر پہنچا تو دیکھا احمد کے والد خانا کھانے جا رہے تھے ان کی بڑی بہو خانا لئے کھڑی تھی آج وہ نہ جانے کس کام میں مشغول تھے جو پورا محلہ کھا چکا تھا مگر وہ اب کھانے بیٹھے تھے۔ ساجد بولا ۔"بابا احمد کو بلاو اس سے ملنے آیا ہوں " وہ بولے گھر پہ نہیں ہے بھیا نالائق چوراہے پر ہوگا" ساجد چوراہے کی جانب چل دیا ویسے رشتے میں احمد ساجد کا چچا لگتا تھا لیکن دونوں ہم عمر اور دوست تھے اس لئے یہ رشتہ پیچھے پڑ گیا تھا ۔کچھ دیر میں ہی ساجد چوراہے پہ پہنچ گیا کسی سے احمد کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا وہ دیکھو پل پہ اکیلا بیٹھا ہے ساجد پل پہ پہنچ کر بولا۔ احمد !
کھمبے پہ بلب جل رہا تھا اسلئے دونوں کو ایک دوسرے کو پہچاننے میں دیر نہ لگی۔دونوں گلے ملے احمد ساجد سے ایسے لپٹا جیسے لنگڑا آدمی اپنا سارا بوجھ بیساکھی پہ چھوڑ دیتا ہے کافی دیر تک دونوں لپٹے رہے پھر ساجد اسے ہوٹل میں لایا اور ہوٹل والے سے کئی چیزیں لانے کے احکام دئے اور دونوں باتیں کرنے لگے۔ احمد بولا یار کاش ! میں نے تمہارے ساتھ ہی پڑھائی چھوڑ دی ہوتی تو بہت اچھا ہوتا ساجد بولا کیا بات کرتے ہو یار بغیر پڑھا لکھا آدمی تو بیل کے مانند ہے ۔
ارے نہیں یار احمد نے کہا
"خیر چھوڑو یہ بتاو نوکری-اوکری نہیں تلاش کی ؟ساجد نے دریافت کیا ۔
احمد بولا ایک سرکاری نوکری دیکھی تھی25 ہزار روپے تنخواہ تھی 15 لاکھ روپےنوکری کے لئے رشوت مانگا گیا ۔ پھر پرائویٹ کالج میں بات کی تو پرنسپل صاحب 5 ہزار کا تقاضہ کرتے ہوئے بولے بھائی تم ہمارے یہاں پڑھاوگے ، تو کالج سے کم سے کم پچاس بچے تو ٹیوشن کے لئے ملیں گے ہی سوچوں ہم تو تمہیں تنخواہ دینگے ہی پھر بھی ان پچاس بچو سے تم کتنا کما سکتے ہو ساجد اس بے روزگاری کی ذمہ دار سرکار ہے اگر سرکار ہر اضلاع میں دو تین کار خانے لگوا دے تو بےروزگاری دور ہو سکتی ہےلیکن افسوس! سرکار لوگوں کے قرض کو معاف کرتی ہے لیکن یہ انتظام نہیں کرتی کہ لوگوں کو قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے اسی طرح باتیں کرتے کرتے رات کے گیارہ بج گئے ۔ہوٹل والے نے کہا جناب ہمیں بھی ہوٹل بند کرنا ہے ساجد نے کھانے کے پیسے چکائے اور احمد کو دو سو روپئے دینے لگا لیکن احمد نے صرف چالیس روپئے لئے پھر بیس روپئے واپس کرتے ہوئے بولا ساجد ! اس بیس روپئے کو رکھ لو اسے کبھی خرچ مت کرنا اسے میں تمہیں اپنی دوستی کی علامت کے طور پہ دے رہا ہوں پھر دونوں ہوٹل سے نکل آئے احمد ساجد سے بولا تم چلو میں ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں ساجد وہاں سے آ رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کل سیٹھ سے بات کرکے کمپنی میں جو جگہ خالی ہے اس میں احمد کو لگوا دونگا الغرص ساجد گھر پہنچ کر سو گیا ۔
وقت صحر ساجد کی اہلیہ نے ساجد کو جگاتے ہوئے کہا " اٹھئے اٹھئے دیکھئے پولیس آئی ہے کسی کا انتقال ہو گیا ہے لوگ پل کی طرف دوڑے جا رہے ہیں ۔ساجد بھی جلدی سے اٹھا اور پل پہ پہنچ گیا پل پہ کافی ہجوم تھا ساجد ہجوم کو چیرتے ہوئے لاش کے پاس جا پہنچا دیکھا تو وہ لاش احمد کی تھی پولیس لاش کو اٹھا رہی تھی لوگ آپس میں فسفسا رہے تھے کہ احمد نے زہر کھا لیا ہے اور ایک شخص احمد کے خودکشی نامہ کو پڑھ کر سنا رہا تھا "میری موت سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہے اگر میری موت کا کوئی ذمہ دار ہے تو وہ ہے " بیروزگاری " ۔ ساجد کے آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے وہ احمد کے دئے بیس روپئے کے نوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا ۔

No comments: