افسانہ " زمیں ساز "
سکندر علی شکن
بہرائچ شریف اتر پردیش
افرین آباد پلیٹ فارم ، مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ابھی افروز پلیٹ فارم پہ پہنچا ہی تھا کہ اس کے سامنے سے ایک عجیب قسم کا شخص گزرا۔ چہرے پر لمبی داڑھی اور گھنی مونچھیں تھیں،چلنے کا انداز بھی عام لوگوں جیسا نہیں تھا۔ افروز اس شخص کے ساتھ -ساتھ چلتا ہوا ٹرین میں جاکر ٹھیک اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ اس سے کلام کرنا چاہتا تھا مگر سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات چیت کیسے شروع کرے۔ کچھ دیر تک مفکروں کی طرح سوچنے کے بعد آخرکار اس سے ہمکلام ہوا ۔
"بابا آپ کہاں جا رہے ہیں؟"
"میں آپ کو بابا دکھتا ہوں!"
"ج جی۔۔ ن ہیں و ۔ و آپکی داڑھی و مونچھیں دیکھ کر۔۔۔۔ ! " افروز لڑکھڑا گیا ۔
اس پر اجنبی اپنا کارڈ دکھاتے ہوے رعب سے بولا----
"میں پی کے، خلائی تحقیق تنظیم کا سائنسداں ہوں"
"پی کے "
" جی ہاں لقب پی کے، نام پرویز کمال، ویسے آپ کی تعریف ؟"
"مجھے افروز کہتے ہیں ادنی افسانہ نگار ہوں"
"بڑی خوشی ہوئی ادیب صاحب آپ سے ملکر "
"مجھے بھی"
" ویسے افروز صاحب میرا اور آپکا کام ایک جیسا ہی تو ہے آپ معاشرے کو حقیقت سے آشنا کراتے ہیں اور وہی کام میرا بھی ہے اگر دیکھا جائے تو ہم دونوں ایک سکے کے دو پہلو ہیں۔
خیر چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاو اگر میں آپکو اپنی کہانی سناوں تو کیا آپ اسے قلم بند کریں گے ؟ "
"بالکل جناب ! کیوں نہیں آپ سنائیں تو !"
افروز کی رضا پاکر پی کے اپنی کہانی کچھ اس طرح سنانے لگا ۔۔۔۔۔
خلائی طیارہ بڑے آب و تاب کے ساتھ خلا میں پرواز کر رہا تھا ۔ گیارہ خلائی محققین پر مشتمل یہ مشن آفتاب کے متعلق خصوصی معلومات حاصل کرنے کے مقصد سے خلا میں روانہ کیا گیا تھا ۔خلائی مشن کی کمان میرے ہاتھوں میں تھی خلائی طیارہ سورج کے بہت ہی قریب پہنچ چکا تھا سائنسداں آفتاب کی نئی نئی تصاویر کیمرے میں مقید کرکے زمین پہ بھیج رہے تھے سولر ونڈز (شمسی ہوائیں) طوفان کے مانند اپنا رعب دکھا رہی تھیں۔ طیارے میں لگی تھرمل پروٹیکشن سیسٹم t.p.s.(جو کہ طیاروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے) ایکدم بے اثر ہو رہا تھا سورج کی گرمی سے طیارہ دہک رہا تھا۔ پھر بھی ہم لوگوں نےکچھ مزید معلومات حاصل کرنے کے غرض سے خلائی طیارے کو اور آگے بڑھایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ آگ کا گولا بن گیا اور زور دار دھماکے کے ساتھ ملبے میں تبدیل ہوکر سورج کی آغوش میں سما گیا ۔ زمین پر بیٹھے خلائی تحقیق تنظیم کے سائنسدانوں کے کمپیوٹر سے سگنل غائب ہو گیا۔
سائنسدانوں کی نظر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ میں بھی مر چکا تھا مگر حقیقت تو یہ تھی کہ جب دھماکہ ہوا تو میں خلائی طیارے سے باہر ہو گیا۔
اور کسی انجانے سیارے کی کشش نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا، جس کی وجہ سے میں اس انجانے سیارے پر جا گرا ۔
کافی دیر بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو ایک انجانی وادی میں پایا جہاں بہت تیزی کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ زمین پہ انسانی قدموں کے نشانات دکھ رہے تھے ، مٹی عجیب طرح کی تھی ، ایک دم سرخ !
میرا جسم بری طرح آگ میں جھلس چکا تھا میں درد سے کراہ رہا تھا لیکن خود کو سنبھالا اور چاہا کہ خلائی تحقیق تنظیم کو سگنل بھیجوں مگر یہ کیا ؟
میرا آلہ کام ہی نہیں کر رہا تھا، شاید ہاں کوئی مشین لگی تھی جو میرے سگنل کو آگے جانے سے روک رہی تھی۔ میں نے لاکھ کوشش کی مگر سگنل نہیں گیا۔
اس پر مجھے بہت غصہ آیا میں نے ریموٹ ایک پتھر پرٹیخ دیا۔ ریموٹ زمین سے ایکدم چپک گیا مجھے لگا کہ میں کسی مقناطیسی زمین پہ ہوں۔
خیر میں وہاں سے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے چلنے لگا۔ ابھی چند قدم کی دوری ہی طے کر پایا تھا کہ چند آدمیوں کا جھرمٹ آتا دکھائی دیا۔ وہ لوگ میرے قریب آئے اور جانے کیا آپس میں بڑبڑانے لگے۔ میں انکی بولی نہیں سمجھ پایا۔ وہ لوگ یکا یک مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مارنے لگے۔ میں اپنے آپ کو بڑی مشکل سے بچا کر بھاگا اور بھاگتے بھاگتے کافی دور نکل آیا ۔ مجھے لگا کہ وہ لوگ میرا خلائی لباس دیکھ کر شاید ڈر گئے ہوں ،آگے پھر ایسا نہ ہوں اس لیے اپنا خلائی لباس اتار کر پھینک دیا ۔ کافی تھک چکا تھا اس لیے تھکان دور کرنے کے غرض سے زمین پر لیٹ گیا ۔
جب میں نے آرام سے فارغ ہوکر اٹھنے کا قصد کیا تو اٹھ نہ سکا۔ میرے کپڑے زمین سے فیوی کول کی طرح چپک چکے تھے۔ مجھے بہت ڈر لگا مگر فورا میرے دماغ میں آیا کہ مجھے کپڑے اتار دینے چاہئے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اب میرے جسم پر صرف زیر جامہ( انڈر ویئر ) تھا۔ میرے دماغ میں خرافات اُمڑا کہ دیکھوں زیر جامہ چپکتا ہے کہ نہیں ،
اسلیے میں نے اپنے زیر جامے کو زمین سے لمس(ٹچ) کیا مگر یہ کیا ؟ میرا زیرجامہ زمین سے نہیں چپکا مجھے سمجھ آیا کہ یہ مقناطیسی زمین سوتی کپڑوں کو نہیں چپکاتی۔ یہ معلومات میرے لیے حیران کن اور بڑی ترجیحات کی حامل تھی۔ اب مجھے مکمل یقین ہو گیا تھا کہ میں اپنی دنیا میں نہیں بلکہ کسی دوسرے سیارے پر ہوں ۔
خیر میں وہاں سے اور آگے بڑھا۔ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا تھا، میرے جسم کی توانائی ختم ہو چکی تھی میرے ہاتھ پیر کام نہیں کر رہے تھے اسی حالت میں زمین پر گر پڑا ۔
کچھ دیر بعد ایک عجیب انسان میرے قریب آیا۔ اس کے کان بہت بڑے بڑے، دانت باہر نکلے ہوئے اور شکل ڈراونی تھی۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہا تھا مگر میں اس کی بات نہیں سمجھ پا رہا تھا ۔
اسے مجھ پہ رحم آیا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔اور ایک ہیلمیٹ نما آلہ مجھے پہنا دیا جس سے مجھے بجلی جیسا جھٹکا لگا میں درد سے کراہ اٹھا۔ کچھ دیر بعد مجھے کچھ عجیب سا لگنے لگا۔ میرے دماغ میں وہاں کا سسٹم نصب ہوچکا تھا۔ اب میں اس کی زبان میں بات چیت کر سکتا تھا۔ اس کے دریافت کر نے پر میں نے اسے اپنی پوری کہانی بے جھجھک سنا دی مگر اسے میری بات پہ اعتبار نہ آیا۔ اسے لگا کہ میں پاگل ہوں ! خیر وہ میرا ہمدرد بن کر میرے ساتھ رہنے لگا۔
رفتہ رفتہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے وہ مجھے اپنے ساتھ دور دور تک گھمانے لے جاتا ۔
دیکھنے میں آسمان ایک دم سرخ اور زمین کے بہت قریب دکھتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان زمین کے بہت قریب ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ آسمان نہیں بلکہ شمسی توانائی کا تختہ ہے، جسے ہمارے سائنسدانوں نے فضاء میں نصب کر کے بجلی
سٹیشن بنا دئے ہیں ۔
ایک دن وہ مجھے ایک اونچے ٹیلے کے پاس لے گیا ہم دونوں ٹیلے پہ چڑھنے لگے۔ وہ تو ٹیلے پہ چڑھ گیا مگر جیسے ہی میں نے ٹیلے پر قدم رکھا مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ میں ٹیلے سے کافی دوری پر جا گرا ۔اس پر وہ شخص بولا ----- " تم ٹھیک کہتے تھے، تم میرے گولے کے رہنے والے نہیں ہو"۔
پی کے اس سے آگے کچھ اور کہتا کہ ٹرین ہارن دیکر رک گئی۔ افروز نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو ویران گڑھ پلیٹ فارم اس کے آنکھوں کے سامنے تھا ۔ پی کے نے کہا دوست اب ہم پھر کبھی ملیں گے، تب ہم اس ادھوری کہانی کو مکمل کرنگے۔
خیر الوداع دوست!
اتنا کہہ کر پی کے انسانی ہجوم میں افروز کے نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔
پی کے کے جانے کے بعد افروز کافی دیر تک اس کہانی کو دل و دماغ میں لاکر سوچتا رہا۔ اسے پی کے کے سیاری سفر کی کہانی بڑی دلچسپ اور حیران کُن لگی اس کے دماغ میں ایک ایسی نئی بات آئی کہ خلائی طیارہ تباہ ہونے کے بعد بھی پی کے بچ گیا تو ہو سکتا ہے کہ جو محققین خلائی تحقیق کے لیے خلا میں رہ گئے اور حادثے کا شکار ہوکر غائب ہو گئے شاید وہ بھی زندہ ہوں اور اُن میں سے کوئی اگلے سٹیشن پر ملے۔ یہی سوچتے سوچتے اُسکی آنکھ لگ گئی اور وہ خوابوں کی دنیا میں کھو گیا۔ جب ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ رُکی تو وہ اُٹھا اور تیز تیز قدموں سے پلیٹ فارم پر اُترنے لگا اُس نے جیسے ہی زمین پر قدم رکھا تو اسے لگا کہ جیسے وہ خلائی جہاز سے گر کر سیارے کی زمین کے ساتھ چپک گیا ہے کیونکہ ٹرین اُس سٹیشن سے کئی سٹیشن آگے نکل چکی تھی، جہاں اُسے اترنا تھا اور جس کام کی غرض سے وہ گھر سے نکلا تھا وہ کام ہونے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔
"بابا آپ کہاں جا رہے ہیں؟"
"میں آپ کو بابا دکھتا ہوں!"
"ج جی۔۔ ن ہیں و ۔ و آپکی داڑھی و مونچھیں دیکھ کر۔۔۔۔ ! " افروز لڑکھڑا گیا ۔
اس پر اجنبی اپنا کارڈ دکھاتے ہوے رعب سے بولا----
"میں پی کے، خلائی تحقیق تنظیم کا سائنسداں ہوں"
"پی کے "
" جی ہاں لقب پی کے، نام پرویز کمال، ویسے آپ کی تعریف ؟"
"مجھے افروز کہتے ہیں ادنی افسانہ نگار ہوں"
"بڑی خوشی ہوئی ادیب صاحب آپ سے ملکر "
"مجھے بھی"
" ویسے افروز صاحب میرا اور آپکا کام ایک جیسا ہی تو ہے آپ معاشرے کو حقیقت سے آشنا کراتے ہیں اور وہی کام میرا بھی ہے اگر دیکھا جائے تو ہم دونوں ایک سکے کے دو پہلو ہیں۔
خیر چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاو اگر میں آپکو اپنی کہانی سناوں تو کیا آپ اسے قلم بند کریں گے ؟ "
"بالکل جناب ! کیوں نہیں آپ سنائیں تو !"
افروز کی رضا پاکر پی کے اپنی کہانی کچھ اس طرح سنانے لگا ۔۔۔۔۔
خلائی طیارہ بڑے آب و تاب کے ساتھ خلا میں پرواز کر رہا تھا ۔ گیارہ خلائی محققین پر مشتمل یہ مشن آفتاب کے متعلق خصوصی معلومات حاصل کرنے کے مقصد سے خلا میں روانہ کیا گیا تھا ۔خلائی مشن کی کمان میرے ہاتھوں میں تھی خلائی طیارہ سورج کے بہت ہی قریب پہنچ چکا تھا سائنسداں آفتاب کی نئی نئی تصاویر کیمرے میں مقید کرکے زمین پہ بھیج رہے تھے سولر ونڈز (شمسی ہوائیں) طوفان کے مانند اپنا رعب دکھا رہی تھیں۔ طیارے میں لگی تھرمل پروٹیکشن سیسٹم t.p.s.(جو کہ طیاروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے) ایکدم بے اثر ہو رہا تھا سورج کی گرمی سے طیارہ دہک رہا تھا۔ پھر بھی ہم لوگوں نےکچھ مزید معلومات حاصل کرنے کے غرض سے خلائی طیارے کو اور آگے بڑھایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ آگ کا گولا بن گیا اور زور دار دھماکے کے ساتھ ملبے میں تبدیل ہوکر سورج کی آغوش میں سما گیا ۔ زمین پر بیٹھے خلائی تحقیق تنظیم کے سائنسدانوں کے کمپیوٹر سے سگنل غائب ہو گیا۔
سائنسدانوں کی نظر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ میں بھی مر چکا تھا مگر حقیقت تو یہ تھی کہ جب دھماکہ ہوا تو میں خلائی طیارے سے باہر ہو گیا۔
اور کسی انجانے سیارے کی کشش نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا، جس کی وجہ سے میں اس انجانے سیارے پر جا گرا ۔
کافی دیر بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو ایک انجانی وادی میں پایا جہاں بہت تیزی کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ زمین پہ انسانی قدموں کے نشانات دکھ رہے تھے ، مٹی عجیب طرح کی تھی ، ایک دم سرخ !
میرا جسم بری طرح آگ میں جھلس چکا تھا میں درد سے کراہ رہا تھا لیکن خود کو سنبھالا اور چاہا کہ خلائی تحقیق تنظیم کو سگنل بھیجوں مگر یہ کیا ؟
میرا آلہ کام ہی نہیں کر رہا تھا، شاید ہاں کوئی مشین لگی تھی جو میرے سگنل کو آگے جانے سے روک رہی تھی۔ میں نے لاکھ کوشش کی مگر سگنل نہیں گیا۔
اس پر مجھے بہت غصہ آیا میں نے ریموٹ ایک پتھر پرٹیخ دیا۔ ریموٹ زمین سے ایکدم چپک گیا مجھے لگا کہ میں کسی مقناطیسی زمین پہ ہوں۔
خیر میں وہاں سے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے چلنے لگا۔ ابھی چند قدم کی دوری ہی طے کر پایا تھا کہ چند آدمیوں کا جھرمٹ آتا دکھائی دیا۔ وہ لوگ میرے قریب آئے اور جانے کیا آپس میں بڑبڑانے لگے۔ میں انکی بولی نہیں سمجھ پایا۔ وہ لوگ یکا یک مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مارنے لگے۔ میں اپنے آپ کو بڑی مشکل سے بچا کر بھاگا اور بھاگتے بھاگتے کافی دور نکل آیا ۔ مجھے لگا کہ وہ لوگ میرا خلائی لباس دیکھ کر شاید ڈر گئے ہوں ،آگے پھر ایسا نہ ہوں اس لیے اپنا خلائی لباس اتار کر پھینک دیا ۔ کافی تھک چکا تھا اس لیے تھکان دور کرنے کے غرض سے زمین پر لیٹ گیا ۔
جب میں نے آرام سے فارغ ہوکر اٹھنے کا قصد کیا تو اٹھ نہ سکا۔ میرے کپڑے زمین سے فیوی کول کی طرح چپک چکے تھے۔ مجھے بہت ڈر لگا مگر فورا میرے دماغ میں آیا کہ مجھے کپڑے اتار دینے چاہئے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اب میرے جسم پر صرف زیر جامہ( انڈر ویئر ) تھا۔ میرے دماغ میں خرافات اُمڑا کہ دیکھوں زیر جامہ چپکتا ہے کہ نہیں ،
اسلیے میں نے اپنے زیر جامے کو زمین سے لمس(ٹچ) کیا مگر یہ کیا ؟ میرا زیرجامہ زمین سے نہیں چپکا مجھے سمجھ آیا کہ یہ مقناطیسی زمین سوتی کپڑوں کو نہیں چپکاتی۔ یہ معلومات میرے لیے حیران کن اور بڑی ترجیحات کی حامل تھی۔ اب مجھے مکمل یقین ہو گیا تھا کہ میں اپنی دنیا میں نہیں بلکہ کسی دوسرے سیارے پر ہوں ۔
خیر میں وہاں سے اور آگے بڑھا۔ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا تھا، میرے جسم کی توانائی ختم ہو چکی تھی میرے ہاتھ پیر کام نہیں کر رہے تھے اسی حالت میں زمین پر گر پڑا ۔
کچھ دیر بعد ایک عجیب انسان میرے قریب آیا۔ اس کے کان بہت بڑے بڑے، دانت باہر نکلے ہوئے اور شکل ڈراونی تھی۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہا تھا مگر میں اس کی بات نہیں سمجھ پا رہا تھا ۔
اسے مجھ پہ رحم آیا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔اور ایک ہیلمیٹ نما آلہ مجھے پہنا دیا جس سے مجھے بجلی جیسا جھٹکا لگا میں درد سے کراہ اٹھا۔ کچھ دیر بعد مجھے کچھ عجیب سا لگنے لگا۔ میرے دماغ میں وہاں کا سسٹم نصب ہوچکا تھا۔ اب میں اس کی زبان میں بات چیت کر سکتا تھا۔ اس کے دریافت کر نے پر میں نے اسے اپنی پوری کہانی بے جھجھک سنا دی مگر اسے میری بات پہ اعتبار نہ آیا۔ اسے لگا کہ میں پاگل ہوں ! خیر وہ میرا ہمدرد بن کر میرے ساتھ رہنے لگا۔
رفتہ رفتہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے وہ مجھے اپنے ساتھ دور دور تک گھمانے لے جاتا ۔
دیکھنے میں آسمان ایک دم سرخ اور زمین کے بہت قریب دکھتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان زمین کے بہت قریب ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ آسمان نہیں بلکہ شمسی توانائی کا تختہ ہے، جسے ہمارے سائنسدانوں نے فضاء میں نصب کر کے بجلی
سٹیشن بنا دئے ہیں ۔
ایک دن وہ مجھے ایک اونچے ٹیلے کے پاس لے گیا ہم دونوں ٹیلے پہ چڑھنے لگے۔ وہ تو ٹیلے پہ چڑھ گیا مگر جیسے ہی میں نے ٹیلے پر قدم رکھا مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ میں ٹیلے سے کافی دوری پر جا گرا ۔اس پر وہ شخص بولا ----- " تم ٹھیک کہتے تھے، تم میرے گولے کے رہنے والے نہیں ہو"۔
پی کے اس سے آگے کچھ اور کہتا کہ ٹرین ہارن دیکر رک گئی۔ افروز نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو ویران گڑھ پلیٹ فارم اس کے آنکھوں کے سامنے تھا ۔ پی کے نے کہا دوست اب ہم پھر کبھی ملیں گے، تب ہم اس ادھوری کہانی کو مکمل کرنگے۔
خیر الوداع دوست!
اتنا کہہ کر پی کے انسانی ہجوم میں افروز کے نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔
پی کے کے جانے کے بعد افروز کافی دیر تک اس کہانی کو دل و دماغ میں لاکر سوچتا رہا۔ اسے پی کے کے سیاری سفر کی کہانی بڑی دلچسپ اور حیران کُن لگی اس کے دماغ میں ایک ایسی نئی بات آئی کہ خلائی طیارہ تباہ ہونے کے بعد بھی پی کے بچ گیا تو ہو سکتا ہے کہ جو محققین خلائی تحقیق کے لیے خلا میں رہ گئے اور حادثے کا شکار ہوکر غائب ہو گئے شاید وہ بھی زندہ ہوں اور اُن میں سے کوئی اگلے سٹیشن پر ملے۔ یہی سوچتے سوچتے اُسکی آنکھ لگ گئی اور وہ خوابوں کی دنیا میں کھو گیا۔ جب ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ رُکی تو وہ اُٹھا اور تیز تیز قدموں سے پلیٹ فارم پر اُترنے لگا اُس نے جیسے ہی زمین پر قدم رکھا تو اسے لگا کہ جیسے وہ خلائی جہاز سے گر کر سیارے کی زمین کے ساتھ چپک گیا ہے کیونکہ ٹرین اُس سٹیشن سے کئی سٹیشن آگے نکل چکی تھی، جہاں اُسے اترنا تھا اور جس کام کی غرض سے وہ گھر سے نکلا تھا وہ کام ہونے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔
No comments:
Post a Comment