विज्ञापन के लिए संपर्क करें 9696449123

Breaking News

Search This Blog

Translate

Monday, April 27, 2020

Aaj ki Nagin / story by Sikandar ali shikan


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ
آج کی ناگن
سکندر علی شکن


وہ دونوں دوست باغ کے نصف میں پڑے لکڑی کے ایک بڑے سے لٹھے پر بیٹھے کسی رنگین موضوع پر تبادلۂ خیال کر رہے تھے ان دونوں کے سوا اس باغ میں کوئی اور موجود نہ تھا ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔ درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرندے ان کی گفتگو سے جیسے محظوظ ہورہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ہوائیں معطر خوشبو پھیلائے جھوم رہی تھیں۔ شام بوجھل تھی لیکن ان دونوں دوستوں کو سورج کی ڈوبتی کرنوں سے کوئی فرق نہیں پڑرہا تھا وہ تو اپنی گفتگو میں کھوئے تھے۔
"عارب! تو، مجھ سے کچھ چھپا رہا ہے ؟" عاصم نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا۔
"اررے کچھ نہیں یار ! کوئی خاص بات نہیں بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عارب مصنوعی مسکراہٹ تلے جواب دیا۔


دوست! کچھ تو ہے ۔۔۔۔جو تو مجھ سے چھپا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ کہیں کوئی۔۔۔۔۔۔ لڑکی کا چکر تونہیں ۔۔۔۔۔ ؟عاصم نے عارب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دریافت کرنے کی کوشش کی۔
" عاصم! ڈرتا ہوں تم کہیں دوستوں میں میرا مذاق نہ بناؤ ۔۔۔۔ "عارب جیسے کسی مخفی خزانہ کا پتہ دینے سے کترارہا تھا۔
"کیا تجھے مجھ پر یقین نہیں؟ چل ۔۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں !!!" عاصم نے اپنی ہتھیلی عارب کی ہتھیلی پر زور سے مارتے ہوئے کہا ۔
"عاصم! میں ۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔"
"کیا میں۔۔۔ میں لگا رکھی ہے۔۔۔۔۔۔ یار تو ، تو ایکدم نئی نویلی دلہن کی طرح شرما رہا ہے۔۔۔۔۔۔اب وقت ضائع نہ کر صاف صاف بتا کیا بات ہے؟"عاصم نے بےچینی سے پہلو بدلتے ہوئے جھنجھلاکر کہا۔
تب عارب گویا ہوا۔" عاصم!  ایک عرصہ بعد آفس سے دو ہفتوں کی چھٹی منظور ہوئی تو میں فورا سفر پر نکل پڑا گھر پہنچنے کی اتنی جلدی تھی کی ٹھیک سے تیار بھی نہ ہو سکا جب اسٹیشن پہنچا تو گاڑی کے چھوٹنے کا آخری اعلان ہو رہا تھا ۔۔۔ میں دوڑ کر ٹرین میں سوار ہوا.....اچانک کسی دوشیزہ سے ٹکراگیا .. میری زندگی میں ایسا خوبصورت حادثہ کبھی نہیں ہوا تھا.....وہ لڑکی خاموش طبع اور بہت حسین تھی ۔ میری تماترتوجہ کا مرکز بن گئی....مجھے ایسی سلجھی ہوئی مشرقی تہذیب کی دلدادہ لڑکیاں اچھی لگتیں جو مشرق کا نمونہ ہوں اور پھر یہ تو خوبصورت تھی- شکل سے معصوم اور کسی شریف گھرانے کی لگتی تھی ۔وہ میرے دل و دماغ پر چھا گئی۔ میں آس پاس سے پرے تخیل کی رنگین دنیا میں گم ہو گیا وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی میں اسے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔ پھر چل گوری ندیا کے پار ۔۔۔
۔۔۔۔۔ دونوں ندیا کے پار بیٹھے بیٹھے محبت کا عالیشان محل بنانے لگے میری اس سے شادی ہوئی وہ دلہن بن کر میرے خواب گاہ میں آگئی۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں کی زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگی ۔۔۔۔۔۔ آنگن میں دو پھول بھی کھل اٹھے۔۔۔۔۔ ایک کا نام عارف رکھااور دوسرے کا آفرین ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ابھی عالم تخیل سے نکل بھی نہ پایا تھا کہ ٹرین رک گئی میں شور غل سن کر خواب خرگوش سے بیدار ہوا ۔۔۔۔ اور چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ عقب سے عارف و آفرین کی ممی مجھ سے نظریں چراتے ہوئے نکلیں اور ٹرین سے اتر کر اسٹیشن کے ہجوم میں میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئی میں کچھ نہ کر سکا سوائے ہاتھ ملنے کے۔۔۔۔۔۔ میں نے منزل مقصود کے بورڈ پر سرسری نظر دوڑائی ۔۔۔۔۔۔۔ ٹرین سے اترا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گھر کی راہ لی ۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر دوسرے کاموں میں ایسا الجھا کی مجھے عارف و آفرین کے ممی کا خیال ہی نہ رہا ۔
مجھے گھر آئے کئی دن گزر چکے تھے ایک دن میں تنہا اپنے کمرے میں خالی ذہن لئے بیٹھا تھا کہ اچانک ٹرین والی وہی دوشیزہ عارف و آفرین کی ممی میرے خیالوں میں بجلی بن کر عود آئی اور فورا غائب ہو گئی میں پریشان ہوگیا۔۔۔۔۔ کمرہ مجھے کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا۔
نگاہوں میں تزلزل بپا ہو گیا ......میرے دل میں اسے دوبارہ دیکھنے کی چاہ سمندر کی بے قرار لہروں کی طرح ہلورے لینے لگی.......میں پریشان..... پنجرے میں بند زخمی شیر کی طرح کمرے میں بے قرار ہوکر ٹہلنے لگا ۔ میرا دماغ منتشر تھا...... بےقراری بڑھنے لگی تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور گلی میں بے وجہ کی آوارگی کرنے لگا.....لیکن دل کی بے قراریوں کو سکون حاصل نہیں ہوسکا۔مجبورا اس امید سے کہ شاید کچھ راحت ملے' میں نے گاؤں کی دوسری جانب اپنے قدم بڑھا دیئے- وہاں میں نے دیکھا کسی رئیس شخص کی بیٹی کی شادی کا جشن چل رہا تھا۔عام گلی راستہ باراتیوں اور گھراتیوں کے چہل پہل سے بھرا پڑا تھا۔جیسےٹریفک جام ہو۔...لوگ اس انداز سے چل پھر رہے تھے کہ مانو انہیں کی ہی شادی ہو۔..لوگوں کے پر مسرت چہرے پیران خرابات کی طرح نظر آ رہے تھے۔ ان کے لئے ڈی جے کے خروش کسی نوائے صبح سے کم نہ تھی....مگر ڈی جے کی یہی وحشت ناک اور بڑی بڑی آوازوں سے میرا دل ہول رہا تھا۔ میں پریشاں حال و اضطراب میں مبتلا زمین پر لاوارثوں کی طرح پڑے خس و خاشاک سے تھوڑی دور جاکر ایک پلیا پر تنہائی میں اپنا سر خم کیے بیٹھ گیا۔.....اپنے آپ سے کچھ کہنا چاہتا تھا...لیکن کیا کہنا تھا اس بات کا پتہ نہ تھا....مگر یہاں بھی ڈی جے کی شور و غل مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔ ڈی جے پر کوئی بھوجپوری گیت بج رہا تھا جسے میں سمجھنے سے قاصر تھا ۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ڈی جے کی منحوس آوازیں اپنے کانوں میں محسوس کر رہا تھا کہ....یکایک میری نظریں اٹھی... ایک بڑے سے گھر کی جانب..... کیادیکھتا ہوں....!!!!کہ چھت پر نیم عریاں حسین و جمیل ایک دوشیزہ ، دل دھڑکانے والی...... 'اپنی خوبصورت زلفوں کو امربیل کی طرح پسارے ڈی جے کی دھن پر سر تال ملائے ہوئے مد مست ناگن کی طرح رقص کر رہی ہے ۔ اس کی پتلی کمر پالیشر کے پٹے کی طرح لچک رہی تھی۔ اس کے پیر اولمپک جمپر کی طرح زیر و بم ہو رہے تھے ۔ جب وہ اپنے رخسار پر بکھرے گیسوؤں کو جھٹکتی تو یوں لگتا جیسے چمیلی کی بیل سے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ اس کی یہ مسحور کن ادائیں اگر بھیشم پتامہ بھی دیکھ لیتے تو وہ بھی اپنے آجیون برہم چاری رہنے کے عہد سے دست بردار ہوجاتے- میں اسکی یہ ادائیں دیکھ کر سکتہ میں آکر بڑبڑانے لگا....اور اپنے آپ سے پوچھنے لگا....کون ہے یہ ناگن کی طرح رقص کرتی دوشیزہ .... ؟ اندرلوک سے اتری کوئی اپسرا ہے...؟کوئی رقاصہ ہے....یا کوئی طوائف.....؟طوائف.....! نہیں نہیں.... ! میں نے یہ کیا کہہ دیا...یہ تو ایک مہذب گھرانے کی لڑکی لگ رہی ہے... کسی بدنام کوٹھے کی زینت نہیں....یہ سچ ہے کہ یہ مجرا کرتی ہے مگر طوائفوں کی طرح پیسے نہیں لیتی...اس لئے اسے طوائفوں کے زمرے میں رکھنا اس کے ساتھ نا انصافی ہوگی ... اسے کوئی دوسرا نام دینا چاہئے۔....دوسرا نام کیا ہو سکتا ہے؟ یکایک میرے منھ سے بے ساختہ بلند آواز نکلی.." آج کی ناگن " اتنا سنتے ہی اس لڑکی کی مذکور الذکر کیفیت پانی کے بلبلے کی طرح پھوٹ کر آنا فانا میں غائب ہو گئی- اس نے اپنے شانو اور چہرے پر بکھرے بالوں کو سمیٹا تو میں حیران رہ گیا یہ ناگن کوئی اور نہیں بلکہ وہی ٹرین والی دوشیزہ مرے عارف و آفرین کی ممی تھیں جو ٹرین میں سادگی اور ملبوسات سے نمونۂ مشرق لگ رہی تھیں .... میرا دماغ چکرایا اور میں مبہوت ہوکر ناگن کے سحر میں کھو گیا.... دوست! شاید دل کا دھڑکنا بھی عجب دھڑکنا ہے.... نگاہوں کا بے ترتیب ہونا بھی ایک سزا ہے اور کسی کا حافظہ میں بس جانا بھی ایک سزا ہے یہ سزا کسی ناگن کے زہر سے تو کم نہیں ہوتا.......
اتنا کہہ کر عارب یوں خاموش ہوا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔
" مبارک ہو بھائی! تم تو ٹرین میں بیٹھے بیٹھے ہی دو بچوں کے باپ بن گئے" عاصم نے قہقہہ لگاتے ہوئےخاموشی توڑ کر بولا
"دیکھ یار! میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرا مذاق بنا دوگے ۔۔۔۔ ارے نہیں عارب! میں تو بس یوں ہی مبارک باد دے رہا تھا " اس سے پہلے کہ عارب کوئی رد عمل دیتا،عاصم دوبارہ گویا ہوا۔
" عارب! اس عمر میں اس طرح کے حادثہ ہوتے رہتے ہیں تمہارا عالم تخیل میں دو بچوں کا باپ بننا کوئی حیران کن بات نہیں۔۔۔۔ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے اس میں نوجوان عالم تخیل میں اپنی زندگی گزارلیتا ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ سچ ہے دوست! نگاہوں کا بے ترتیب ہونا ایک سزا ہے اور کسی کا حافظہ میں بس جانا بھی ایک سزا ہے اور یہ سزا کسی ناگن کے زہر سے کم نہیں ہوتی۔
دوست! یہ دنیا ایک رنگ منچ ہے اس پر کسی کا اصلی روپ نظر نہیں آتا ۔۔۔۔ وہ لڑکی جو سراپا نمونہ مشرق تھی ڈی جے کی آواز پر رقص کرتی نظر آئی ۔۔ عاصم کی یہ کلمات سن کر عارب ایک لمبی سانس لیکر بولا ۔۔۔۔۔ ہاں دوست ! سچ کہا تم نے ۔۔۔۔۔ پھر دونوں دوست وہاں سے مسکراتے ہوئے اٹھے اور گھر کی جانب چل دئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: