विज्ञापन के लिए संपर्क करें 9696449123

Breaking News

Search This Blog

Translate

Sunday, May 12, 2019

Story Reshmi dupatta/Nawajis Rosha

افسانہ-- ریشمی دوپٹا
افسانہ نگار---- نوازش علی
ماں نے کہا سادھنا تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے
کہ کورس کی کتابیں چھوڑ کر فضول چیزوں پر وقت مت برباد کیا کرو چلو اپنی کتابیں اٹھاو سادھنا نے اسے رکھ کر کورس کی کتابیں اٹھا لی کچھ دیر بعد اس نے کھڑکیوں سے دیکھا ماں پڑوس میں چلی گئی، سادھنا نے الماری سے پھر اسی میگزین کو نکالا جسے وہ پڑھ رہی تھی اور جہاں سے اس نے چھوڑا تھا وہیں سے پڑھنے لگی-----


چاروں طرف خوشی پھیلی تھی خالہ پھولے نہیں سما رہی تھی محلے کی تمام عورتیں دلہن کو دیکھنے آتی جاتی رہتی تھی ایک طرف عورتیں بیٹھی گا رہی تھیں
" ہاے اللہ نے یہ دن دکھایا بجی رے شہنائی گھر میں "
اکیلے ہونے کی وجہ سے خالہ کو گھر میں دم بھر کی فرصت نہیں تھی آج ان کے دل کے سارے ارمان نکل چکے تھے چاند سی بہو پاکر آج وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی خدا نے انہیں دو اولاد سے نوازا تھا ایک لڑکی اور ایک لڑکا، لڑکی کا نام نور جہاں اور لڑکے کا نام جابر ، جس کی کی شادی تو کل ہو چکی تھی اب بچی تھی نور جہاں جس کی شادی اس کے خالہ کے لڑکے روشن کے ساتھ لگی تھی ان دونوں کی شادی تو بچپن میں ہی طے کر دی گئی تھی روشن اس وقت یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا اس کی عادت شعر ​​اور غزل لکھنے کی تھی جگہ جگہ مشاعرے میں جاتا تھا بیس سال کی عمر میں ہی اس کے چرچے جگہ جگہ تھے اب تو خالہ روشن کو اور بھی پسند کرنے لگی تھی وہ جلدی جلدی روشن کو اپنے گھر بلاتی رہتی ۔
آج روشن ایک سال کے بعد خالہ کے گھر گھومنے گیا نور جہاں کے بابا جن کا نام ستار تھا آنکھیں دھنسی ہوئی سر پر سن کی طرح بال عمر تقریبا پچاسی سال کے ارد گرد تھی وہ دروازے پر ملے بولے خالہ اندر ہی ہیں روشن اندر گیا خالہ نے پورے گھر والوں کی خیریت پوچھی تل کے لڈو کھلائے پھر بولی میں بازار جا رہی ہوں روشن کو اچھی طرح کھلا پلا دینا یہ بات شاید انہوں نے بھابھی یا نور جہاں دونوں سے کہی ۔
بھابھی روشن کو اپنے کمرے میں لے گئیں پھر انہوں نے آواز دی نور جہاں ! وہ آئی بولی کیا بھابھی؟
بھابھی ہنستے ہوئے بولی ارے بھائی تمہارے دل کے قریب آئے ہیں ان کی کچھ خاطر داری نہیں کرو گی نور جہاں کی نظریں چکی تھی یہ بات سن کر وہ اور بھی شرما گئی بھابھی بولی جاو ان کے لئے کھانا لے کر آو نور جہاں جیسے ہی کھانا لے کر آئی بھابھی اٹھ کر جانے لگی روشن بولا بیٹھو نا بھابھی!
بھابھی بولی تم کھاو میں ابھی آتی ہوں نور جہاں نے جھکی نظروں سے کھانا لگایا بولی کھانا کھائیے روشن بولا پہلے تم بیٹھو ایسا کہہ کے نور جہاں کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بٹھا دیا نور جہاں بولی کیا کر رہے ہو بھابھی کیا سوچیں گی روشن بولا کچھ نہیں سوچیں گی تم بیٹھو پھر روشن اسےالفت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا کیوں کہ جب جب وہ آتا تھا اسے نور جہاں میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور نظر آتی تھی وہ دن بدن نكھرتی ملتی تھی نور جہاں بولی کیا دیکھ رہے ہو؟ روشن بولا کچھ نہیں ہمارا بیگ اٹھاو نور جہاں نے اٹھا کر دیا روشن نے اس میں سے ایک دوپٹا نکالا۔
نور جہاں بولی--- " ارے ریشم کا دوپٹا کس کے لئے لائےہو؟ "
روشن بولا---
"تمہارے لئے!"
تم اوڑھوگی نا اسے!
نور جہاں بولی نہیں مجھے شرم آئے گی اور پھر اماں پوچھینگی تو کیا بتاونگی اسے تم اپنے پاس ہی رکھو روشن بولا نور جہاں جانتی ہو میں یہ دوپٹا تمہیں کیوں دے رہا ہوں اس لئے کہ جب تک یہ ڈپٹا تمہارے پاس رہے گا میں سمجھوں گا تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور جب تم اس کو واپس کر دوگی تو میں سمجھوں گا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو نور جہاں میں نے تو دل میں نے ٹھان لیا ہے کہ زندگی میں دوپٹا واپس ہوتے ہی خود کو فنا کر دوں گا روشن کا یہ کہنا تھا کہ نور جہاں کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے روشن بولا ارے نور جہاں تم رو کیوں رہی ہو؟
وہ بولی تم ہی نے تو رلایا ہے تم کیا سمجھتے ہو نور جہاں تمہارے بغیر خوشی بھری زندگی جئیگی نہیں، مگر میں تمہاری طرح خود کشی نہیں کروں گی خوشی ضرور چھوڑ دوں گی پھر بولی ارے تم نے اب تک کھانا نہیں کھایا چلو کھاو روشن بولا نور جہاں تم کو دیکھ کر بھوک ہی ختم ہو گئی تبھی بھابھی کمرے میں كھاستے ہوئے آئیں اور بولی روشن تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا نور جہاں جانے لگی روشن نے نور جہاں کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا کہو نہ بھابھی کچھ دیر بیٹھے بھابھی ہنس کے بولی تم ہی روک رہے تو میں کیا روكوں اچھا بیٹھو نور جہاں بھابھی ڈپٹےکو دیکھتے ہوئے بولی ارے یہ ریشم کا دوپٹا کس کا ہے؟ روشن شک پکا کے بولا وہ کیا ہے نا بھابھی۔۔۔۔۔ مگر یہ لیتی ہی نہیں بھابھی بولی ہوں!!! بڑا خیال رکھنے لگے ہو اس کا اچھا رکھ لو نور جہاں وہ بولی مگر اماں پوچھیں گی تو ! بھابھی بولی کہہ دوں گی میرا ہے روشن بولا واہ بھابھی بس اسی طرح میرا ساتھ دیتی رہو اب کی بار آؤں گا تو آپ کے لئے بھی ایک دوپٹا لاؤنگا وہ بولی اچھا مگر بھولنا مت روشن بولا بالکل نہیں بھولوں گا دوسرے دن جب روشن اپنے گھر آنے لگا تو نور جہاں چپکے سے بولی پھر کب آؤ گے روشن بولا بہت جلد پھر روشن وہاں سے چلا تو آیا مگر اسے اب بھی نور جہاں کے زلفوں کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی اسے اب نور جہاں کی دوری گنوارا نہ تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ ہردم نور جہاں کے پاس بیٹھا رہے عمر کے حساب سے نور جہاں بھی روشن کو ایک لمحے کے لئے نہیں بھولتی ہر لمحے اسے اپنے نگاہوں میں بسائے رکھتی ۔
نہا نام کی لڑکی سے روشن کی اچھی دوستی تھی۔ دونوں میں خوب جمتی تھی جس دن روشن کلاس نہیں لیتا تو نہا اس کے ہاسٹل پر آ جاتی اور اگر سوتا ملتا تو اس پر پانی ڈال کر جگا دیتی اور اس کے جاگتے ہی اسے ڈاٹنے لگتی ماں باپ کا پیسہ برباد کرنے آئے ہو یہاں پڑھنا نہیں تو گھر بیٹھو۔
جب روشن پانچویں میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھ اس کا ایک دوست اجمل اسی کے ساتھ پڑھتا تھا اجمل کے باپ کرنل تھے اور اب وہ کانپور میں رہنے لگے تھے مگر دوستی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی دونوں خط کے ذریعے بات چیت کرتے رہتے تھے اجمل اب اردو پڑھ کر ایک اچھا عالم ہو گیا تھا ۔
روشن کبھی كبھي کانپور اجمل کے یہاں گھومنے جاتا رہتا تھا کافی دن گزر گئے موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد سے روشن کالج نہیں گیا تب تک اس کی چچیری بہن کی شادی طے ہو گئی گھر والوں نے دعوت دینے کے لئے روشن کو خالہ کے گھر بھیجا ان دنوں خالو گھر پر ہی تھے اچانک بارش کی وجہ سے روشن کو خالہ کے گھر رات کو رکنا پڑا روشن جب بھابھی کے کمرے میں گیا تو بھابھی بولی روشن میرا دوپٹا روشن بولا وہ کیا ہے نا بھابھی جلدی میں چلا اس لئے خیال ہی نہیں رہا مگر اب کی بار آؤں گا تو ضرور لے آؤں گا بھابھی بولی اچھا چھوڑو وہ بات میں تو مذاق کر رہی تھی گھر والے کیسے ہیں روشن بولا مجھے چھوڑ کر باقی سبھی اچھے ہیں بھابھی ہنستے ہوئے بولی کچھ دن انتظار کرو تم بھی اچھے ہو جاؤ گے۔
شب کو نور جہاں اپنی دادی کے پاس لیٹی صحن میں روشن کچھ ہی فاصلے پہ تھا دادی جیسے سوئی دونوں چھت پر نکل آئے دونوں میں خوب باتیں ہوئی صبح کو جب روشن واپس گھر آنے لگا تو اس نے خالہ -- خالو سے کہا -- آپ سب کو شادی میں ضرور آنا پڑے گا وہ بولے انشاء اللہ ہم ضرور آئیں گے روشن نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو نور جہاں دروازے کے کنارے کھڑی تھی روشن کو محسوس ہوا کہ جیسے نور جہاں کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہیں اس لئے آ ج آتے وقت اس کے پاؤں بوجھل ہو گئے تھے اس سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ نور جہاں کے آنسوؤں کو تیركر جا رہا ہے اسے تھکاوٹ سی محسوس ہو رہی تھی ۔
الغرض روشن کی چچیری بہن کی شادی میں خالہ --خالو دونوں آئے روشن کی ماں چاہتی تھی کہ اب روشن کی شادی ہو جائے کیونکہ گھریلو کام کاج میں انہیں زیادہ تکلیف ہوتی تھی جب خالو سے بات چلی تو انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ رضامندی دے دی بولے اگلے سال کر دیتے ہیں دونوں کی شادی۔
روشن جب کالج گیا اور نہا کو پتہ چلا کہ روشن کی شادی طے ہو گئی ہے تو اس نے کالج کے سبھی دوستوں کو بتا دیااور تمام دوستوں کو لے کر روشن ہاسٹل پر پہنچ گئی بولی مٹھائی تو تمہیں کھلانا ہی پڑے گا آخر بچپن کے خواب جو پورے ہو رہے ہیں نا ۔ وقت ایسے گزرتا گیا پھر وہ وقت آ گیا جو خالو نے وعدہ کیا تھا مگر انہوں نے نہ کوئی پیگام بھجوایا اور نہ ہی شادی کے بارے میں کچھ بات کی روشن کی ماں کہتی شادی کی ساری اچھی تاریخیں نکلی جا رہی ہیں اور وہ نہ جانے کیوں خاموش ہیں۔
اتفاق سے بھابھی روشن کو بہرائچ کے سالانہ میلے میں مل گئیں بولی روشن میلا گھومنے آئے ہو کیا؟ روشن بولا ہاں اب میلے میں مل گیا تو سمجھو میلا ہی گھومنے آیا ہوں تب تک بھیا بولے تم دونوں بات کرو میں ابھی آتا ہوں پھر وہ چلے گئے روشن بولا بھابھی تمہارے اوپر مکھیاں بیٹھتی ہوں گی تو سرک کر نیچے گر جاتی ہوگیں۔
بھابھی بولی کیوں؟
روشن بولا ارے سنگ مر مر جیسا تمہارا بدن ہے اس پر مکھیوں کا رک پانا تو مشکل ہی ہوگا۔
بھابھی ہنسنے لگی، سچ ہی بھابھی تھی ہی کچھ ایسی۔
روشن بولا بھابھی آپ نور جہاں کو ساتھ نہیں لائیں یہ سنتے ہی بھابھی کی ہنسی غائب ہو گئی ان کا چہرہ مرجھا گیا بولی روشن اب تم نور جہاں کے خواب دیکھنا بند کر دو
كيوں كی اس کی شادی ہو چکی ہے۔
یہ سنتے ہی روشن کو چکر سا آنے لگا اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اس کے لئے تو دنیا ہل گئی تھی ایک پل میں ہی اس کے خوابوں کا باغ اجڑ گیا تھا کسی طرح اس نے خود کو سنبھالا اور بولا---
" بھابھی کب اور کہاں اس کی شادی ہوئی؟"
وہ بولی یہ تو نہیں جانتی مگر اتنا جانتی ہوں تمہارے خالو کے ایک دوست ہیں انہیں کے لڑکے کے ساتھ ہوئی ہے نورجہاں تو تمہارے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی اس نے مجھے سے اور اپنی ماں سے کہا بھی مگر میں کیا کرتی تمہاری خالہ مجھےڈانٹنے لگیں بولی --- تم نے نورجہاں کو بہکا رکھا ہے اور نورجہاں سے بولی آئندہ تیرے منہ سے ایسی بات نہ نکلے ۔
سب نے اس کی حسرت کو دبا کر اس کی شادی دوسری جگہ کردی مگر میں نے دیکھا ہے اس کے دل میں صرف تمہارا ہی نام لکھا ہے اس کے آنکھوں سے آنسو ہم سب کی جدائی کے نہیں بلکہ تمہاری جدائی کے غم میں ٹپک رہے تھے جس دن اسے معلوم ہوا کہ اس کی شادی تمہارے ساتھ نہیں ہوگی اس دن سے میں نے اسے ہنستے نہیں دیکھا۔
گھر آکر روشن نے جب یہ خبر اپنی ماں کو سنایا تو انہیں اعتبار نہ ہوا۔
انھوں نے پورا حال معلوم کرنے کے لیے خالوں کو خط لکھا خالو نے خط میں بتایا کہ روشن ہندی پڑھ کر دین -دھرم بھول کر موسیقی میں ڈوب گیا ہے اور ہماری بیٹی دین کی پابند ہے اور سب سے بڑی بات نور جہاں ہی نہیں چاہتی تھی کہ اس کی شادی روشن کے ساتھ ہوں اس لئے جہاں اس کی مرضی تھی وہیں اس کی شادی کردی۔
روشن کے زندگی کا یہ پہلا غم تھا وہ غمگین رہنے لگا اس کی نگاہوں میں بس ہر دم نورجہاں کی مسکان گھوما کرتی وہ بچپن میں نور جہاں کے ساتھ بتائے دنوں کو یاد کرتا اس کی حالت دن بدن نورجہاں کو نہ پانے کے غم میں بگڑتی جارہی تھی اب تو بس آنکھوں کو بند کر لیتا اور سارا دن نورجہاں کی یادوں میں کھویا رہتا اس کی حالت دیکھ کر گھر والے پریشان ہوگئے نہا اور اس کے دوستوں کو جب یہ حال معلوم ہوا تو انہوں نے روشن کو سمجھایا اتنا غم کیوں کرتے ہو کیا تمہیں ایسی لڑکی نہیں ملے گی ارے اس سے اور اچھی اچھی لڑکیاں ملیں گی کیا رکھا ہے اس میں بھلا دو یار اسے روشن بولا یہ آنکھیں بڑی دیوانی ہوتی ہیں ایک بار جسے آنکھوں میں بسا لیتی ہیں انہیں بھولنا آسان نہیں ہوتا ۔
روشن نے نور جہاں کی جدائی میں تمام شعر و غزل لکھے اور اس میں کوئی کمی ہے کہ نہیں یہ ڈسکس کرنے کے لیے وہ اپنے کانپور کے دوست اجمل کے پاس گیا۔
ٹھنڈی کا موسم تھا روشن کو جوکام تھا اس کی آواز موٹی ہو گئی تھی دونوں دوست باتیں کر رہے تھے تبھی ایک عورت دپٹے میں چہرہ چھپا کر چائے لے کر آئی اور چائے دے کر چلی گئی روشن نے پوچھا یہ کون ہے اجمل نے تھوڑا شرم کے ساتھ کہا-----" کیا بتاؤں یار ایسی جلدی میں میری شادی ہوئی تمہیں کہ بتا نہیں سکا "
روشن بولا----" کوئی بات نہیں تم دونوں ہمیشہ خوش رہو یہی میری دعا ہے"
یہ سنتے ہی اجمل نے سر کو جھکا لیا۔
روشن بولا --"کیوں خوش ہو نا ! اپنی بیوی کے ساتھ " ۔
اجمل بولے----" بیوی کہاں یار ! اب تو ایسا پھنسا ہو کہ۔۔۔۔۔۔ ۔
روشن بولا ---- "کیا مطلب ہے تمہارا"
اجمل بولے--- " یار ! شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ وہ کسی اور کو چاہتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی اس نے مجھے بتایا کہ اس نے میرے ساتھ نکاح ہی نہیں پڑھا ہے۔
بولی آپ مجھ پر رحم کھائیں اور مجھ کو سمجھنے کی کوشش کریں اب میں جب بھی اسے تنہائی میں دیکھتا ہوں روتے ہی پاتا ہوں اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تو میرے آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے ہیں ۔
روشن بولا ----" تم نے یہ بات اپنے ابا کو نہیں بتایا"
وہ بولے اگر انہیں بتاتا تو اسی وقت طلاق ہو جاتا اور اس کی بےعزتی ہوتی اس لیے میں نے ابا سے کچھ نہیں کہا ، اب کچھ دن تک ایسے ہی رکھوں گا پھر اپنی کوئی مجبوری بتا کر طلاق دے دوں گا ۔
الغرض روشن کانپور سے واپس آ گیا اور اس کی حالت وہی رہی کالج گیا تو نہا نے پھر سمجھایا۔
تو اس نے صرف اتنا کہا کہ ---- "بڑے بد قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو دل چاہے چیز کے پاس ہوتے ہوئے بھی اس سے دور ہوجاتے ہیں واقعی نہا میں بھی بہت بد قسمت ہوں"۔
نہا بھی روشن کے غم میں سامل ہوتے ہوئے بولی--- "دیکھو روشن جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا اب تم بھی خود کو سنبھالو کیوں اس کی یادوں میں جل رہے ہو وہ تو خوشی کی زندگی جی رہی ہوگی "۔
روشن بولا --- تم نہیں جانتیں ہو نہا!
نورجہاں نظریں جھکا کر کیا کر سکتی ہے؟ جب تب یہ زندگی رہے گی میں نورجہاں کا انتظار کرتا رہوں گا"۔
اب تو روشن کالج میں رہ کر بھی کلاس نہیں لیتا نہا سمجھاتی مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا اس کا بلکل پڑھائی سے منھ مڑ چکا تھا، بس ! شعر و غزل لکھنا اس کی فطرت بن گئی تھی۔
وقت گزرتا گیا کچھ دن بعد روشن کو کانپور کے ایک مشاعرے میں بلایا گیا روشن نے اپنے بچپن کے دوست اجمل کے نام خط لکھا کہ آپ سب کو مشاعرے میں آنا ہوگا ۔ اب آپ ہی لوگ نہیں رہیں گے تو ہمارا دل کیسے لگے گا ۔
جس دن مشاعرہ ہونا تھا اجمل نے اپنی بیوی سے چلنے کو کہا تو اس نے جانے سے انکار کیا انھوں نے کہا دیکھو امی ابو چل رہی ہے اگر تم نہیں چلو گی تو وہ کیا سوچیں گے ۔
زیادہ اصرار کرنے پر وہ چلنے کے لئے تیار ہو کر اجمل کے ساتھ مشاعرے والی جگہ پر پہنچ گئی۔
مشاعرہ شروع ہوچکا تھا کچھ دیر بعد روشن کا نمبر آیا اجمل نے ہاتھ ہلاتے ہوئے اشارہ کیا آ گیا ہوں۔ روشن خوش ہوا
اجمل کی بیوی اپنے چہرے کو دوپٹے میں چھپائے ہوئے تھی ہوائےخوب لہرا کے چل رہی تھی اجمل کی بیوی نہ جانے کس سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اسے دیکھ کر ایسا محسوس کیا جاسکتا تھا کہ وہ کسی پرانی باتوں کو سوچ رہی ہے ۔
سوخ ہوائے ان کی سر سے دوپٹے کو بار بار اڑا دیتی تھی جیسے آج کوئی پردہ فاش کرنا چاہتی تھی جسے اجمل کی بیوی بڑے قرینے سے بار بار سنبھال رہی تھی وہ دھانی رنگ کا جوڑا پہنے بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔
تبھی اس کے کانو میں ایک آواز سنائی دی -----
"میرا ریشمی دوپٹہ واپس کبھی نہ کرنا
واپس کیا جو تم نے ، میرا تو ہوگا مرنا۔
یہ آواز اس کو کچھ جانی پہچانی سی لگی شاید وہ اس آواز کو پہچانتی تھی اس آواز سے جیسے اسکے کچھ رشتے تھے اس نے دپٹا ہٹا کر دیکھا تو ایک نوجوان پڑھ رہا تھا شاید وہ اس جوان کو بھی جانتی تھی اس لیے بے اختیار ہو کر اس کی طرف دوڑ پڑی تیز ہواؤں نے اس کے ڈپٹے کو سر سے اڑادیا اجمل نے دیکھا کہ اس کی بیوی بھاگتے بھاگتے روشن سے لپٹ گئی ۔
بولی ----- روشن ! روشن ! اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے روشن کو اعتبار نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی باہوں میں نورجہاں ہے تب تک اجمل کے ابا آکر بولے---- " بے حیا!
آگے کچھ کہنا چاہتے ہی تھے کہ اجمل نے انہیں ڈانٹ نے سے منع کر دیا اور بولے --- "
نورجہاں آج تمہارا انتظار ختم ہوا ۔ کاش ! مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ تم روشن کو چاہتی ہو تو اتنے دن انتظار نہ کرنا پڑتا ۔
ہم دونوں بچپن کے دوست ہیں پھر گھر لا کر خوشی خوشی اجمل نے روشن کی مہمان نوازی کی اور بولے طلاق کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا جب نورجہاں نے میرے ساتھ نکاح نہیں پڑھا ۔ پھر بھی میں اپنی طرف سے طلاق دیتا ہوں ۔ شادی سے پہلے ماں باپ کو چاہیے کہ وہ لڑکا --لڑکی دونوں سے پوچھ لے کہ تمہاری شادی فلاں کے ساتھ ہو رہی ہے تمہاری کیا مرضی ہے ؟
آخر کار دونوں کی تمنا پوری ہوئی اور دونوں کی شادی ہوگئی۔
آج نورجہاں وہ ریشمی دوپٹہ اوڑھے بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی وہ دوپٹہ اس کے حشن میں چار چاند لگا رہا تھا اس کے خشک ہونٹ دہکتے انگاروں میں بدل گئے تھے اسے جسم کے ہر ہر عضو اسے مبارکباد دے رہے تھے مگر نورجہاں کے لبوں پر ہنسی ہوتے ہوئے بھی اس کے آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے وہ روشن کو پانے کی خوشی کے تھے کیونکہ نورجہاں روشن کا انتظار تو ضرور کر رہی تھی مگر اسے اعتماد نہیں تھا کہ روشن اسے مل جائے گا۔
بعد میں جب نورجہاں کے ابا کو سب کچھ معلوم ہوا تو روشن کے گھر آئے اور خالہ -- خالو نے روشن اور نور جہاں سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔
بھابھی نے مسکرا کر اپنے رسیلے ہونٹوں سے کہا --- " روشن دل کی مراد پوری ہو گئی ہے اب تو دوپٹا دے دو"
روشن بولا---" بھابھی کل بازار جاکر آپ کے لیے دوپٹا لے آونگا۔
نورجہاں کے ابا جمال نے نور جہاں کو اپنے گھر چلنے کے لیے کہا۔
نورجہاں نے روشن کی طرف دیکھا روشن نے آنکھوں کے اشارے سے کہا چلی جاؤ نورجہاں اٹھی اور روشن کے کان کے پاس منھ لگا کر بولی ---
" روشن! مجھے لینے تم جلدی آ ن ن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب تک ماں نے پکارا سادھنا ! سادھنا !
سادھنا نے فورا میگزین کو رکھ کر کورس کی کتابیں کھول لی مگر اسکے نظروں کے سامنے روشن اور نورجہاں کا چہرہ ابھی بھی گھوم رہا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ آخر نورجہاں روشن سے کیا کہنا چاہتی
تھی۔


---------------------------------------------------------------------
(ایل ۔ایل ۔ بی ۔ اسکالر، سنجیونی کالج آف لا کرتن پور بہرائچ یو۔ پی۔)
رابطہ نمبر 9696449123